|

وقتِ اشاعت :   April 11 – 2020

حاملہ خواتین اس بارے میں تشویش اور الجھن میں مبتلا ہیں کہ بچے کی پیدائش سے قبل اور بچے کی پیدائش کے بعد، دوران حمل آنے والی پیچیدگیاں،ان کے نوزائیدہ بچوں اور مستقبل کے بچوں کے لئے ناول کرونہ وائرس کتنا نقصان دہ ہے، جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ ہر روز اس بیماری کے بارے میں معالجوں، صحت کے اداروں کے مشورے،احکامات بدلتے جا رہے ہیں۔ پاکستان کے حالات حاضرہ کو مد نظر رکھتے ہوئیحاملہ خواتین کو معاشرتی دوری، مستعد حفظان صحت پر خاص عمل کرنا چاہئے،ساتھ ساتھ معاشرتی اور پیشہ ورانہ مدد حاصل کرنا چاہئے۔

یہ بیماری ایک منحرف حقیقت ہے اور یہ ایک پریشان کن صورتحال ہے کہ کسی بھی قسم کی حقیقت منظر عام پر آسکتی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ماں اس بیماری کی وجہ سے بچے کے اندر وائرس پیدا کرنے کا سبب بنے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ پیدائش کے فورا بعد ہی اپنے بچے سے الگ ہوجائے۔ ہوسکتا ہے کہ اس کے نوزائیدہ بچے کی دیکھ بھال کے لئے ضروری سامان اور ڈایپر نہ ملیں،کون جانتا ہیکہ اپریل کے آخر تک دنیا اور ملک کے کیا حا لا ت ہوں۔۔۔۔۔۔

برے ماحول کے نتیجے میں بچے کی پیدائشی میں عدم توازن کا ہونا،حمل کا وقت سے پہلے گرنا یا گرنے کا خطرہ ہونا،قبل از وقت بچے کی پیدائش،دوسرے تولیدی افعال کا اثر انداز ہونا جیسا کہ حیض کی خرابی اور بانچھ پن،اس طرح کے ماحول سے ماؤں کا یاسیت یا ڈپریشن میں جانا، خوفزدہ اور افسردہ ہونا، کم وزن کے بچے کو جنم دینا،حمل کے دوران ذہنی دباؤ میں رہنا،نفلی ڈپریشن کا سبب بنا یا سنگین حالت تک پہنچ جانا اور مہینوں اسی حالت میں رہنا اور جسمانی اور ذہنی صحت کا مستقلا خراب ہوتے جانا شامل ہے۔ کیا اسپتال خواتین اور ان کے نوزائیدہ بچوں کے تحفظ کے لئے اقدامات کر رہے ہیں؟کیا ڈاکٹر اور حفظان صحت کے شعبوں میں کام کرنے والوں کی صفائی کو جانچا جا رہا ہے وہ احکامات جو ماؤں کو معلوم ہونی چاہیں اس بارے میں آگاہی دی جا رہی ہے؟

دیکھنے میں آرہا ہے کہ خواتین کے قبل از پیدائش کا معاینہ اور علا ج ہونے سے قاصر ہیں جس کی وجہ سے خواتین میں حیاتیاتی اور نفسیاتی مسائل جنم لے رہے ہیں جس سے ان کی صحت اور ان کے ہونے والے بچوں پر منفی اثرات مرتب ہونے کا پورا اندیشہ ہے۔اس سلسلہ میں میٹرنٹی ہوم میں ڈاکٹرز کی موجودگی اور حاملہ خواتین کے لئے پیدائش سے پہلے کا طبی معائنہ اور دیگر ٹیسٹ کو جاری رکھا جانا ضروری ہے اور پیدائش کے بعد ماں اور بچے کی صحت کے لئے بہتر انتظام اور نگرانی کرنا ایک ضروری عمل ہے۔اور حکومت کو ان معاملات پر باقاعدہ پالیسی مرتب کرنی چاہیے۔

پاکستان میں کرونا وائرس سے متاثر بچوں اور حاملہ خواتین کے بارے میں اعداد و شمارسامنے آنے چاہیے۔چونکہ حاملہ خواتین اور نومولود فلو جسے دوسری سانس کے انفیکشن سے شدید بیمار اور موت کا شکار ہوسکتے ہیں لہذا امریکن کالج آف اوبسٹر یشنزنس اور امراض کے ماہر کے مطابق انہیں وائرس سے بچنے کے لیے زیادہ آبادی والے علاقوں سے دور رہنا چاہیے۔

معاشرتی دوری کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے حفظان صحت کے اصولوں پر عمل کرنا چاہیے،غیر ضروری باہر نکلنیسے خود کو بچانا اور بیمار افراد سے دوری اختیار رکھنا چاہیے۔ کرونا وائرس کی حامل حاملہ خواتین کو ہسپتال میں بچے کی پیدائش کروانی چاہئے، جہاں پیدائش کے بعد ماں سے بچے میں وائرس منتقلی کے خطرے کو کم کرنے کے لیے اقدامات کئے جا سکیں انہیں اور ان کے نوزائیدہ بچوں کی صحیح دیکھ بھال کی جا سکے ماں اور ان کے بچوں کو الگ تھلگ کمروں میں رکھنے، یا ماں اور نوزائیدہ کو کم از کم چھ فٹ الگ رکھا جا سکے، ساتھ ساتھ ڈاکٹرز اور سٹاف کو صفائی کا خاص خیال رکھنا چاہیے۔

اس بات کے کچھ شواہد موجود ہیں کہ کرونا وائرس کے حامل حاملہ خواتین پیدائش کے بعد اپنے بچوں میں وائرس پھیلانے کی صلاحیت رکھتی ہیں مگر 2020,26 مارچ سے پہلے، تحقیق میں تجویز کیا گیا تھا کہ بچے کی پیدائشی کے بعد اس مرض کا خاتمہ نہیں ہوتا ہیاس کے لیے ماؤں کو علاج کا مکمل طریقہ اپنانا ہوتا ہے۔

چین کے شہر ووہان میں 9 حاملہ خواتین کے اوپر ایک مطالعہ کیا گیا، جس میں پیدا ہونے والے ایک بچے کا ٹیسٹ مثبت تھا، اس تحقیق سے پتہ چلا کہ باقی ماؤن کے بچوں کے ٹیسٹ منفی تھے۔ اور ایک بچے کا ٹیسٹ مثبت آنے کی وجہ پیدائش کے بعد ماں سے بچے کو وائرس لگنے کی وجہ بتای۔

12مارچ 2020 میں (سی ڈی سی) کا طبی پیشہ ورانہ سیمنار ہوا جسں میں یہ پتہ لگا کہ کرونا مریض خواتین کے پیدا ہونے والے 34 بچوں میں سے 34 بچوں کے منفی نتائج سامنے آئیں۔ لیکن اس کے برعکس 26 مارچ کو ہونے والی تینوں مطالعات نے ان نتائج کو سوالیہ نشان بنا دیا، جس کے ذریعہ یہ ظاہر کیا گیا تھا کہ جب پیدائش کے بعد سختی سے بچاؤ کی تدبیر نہیں اپنائی جائیں تو یہ مرض بچے کو لگ جاتا ہے۔

One Response to “حاملہ خواتین اور کرونا وائرس کے اثرات”

Comments are closed.