کرہ عرض پر کوئی ایک ایسا ملک نظر نہیں آتا جو کورونا کی وجہ سے متاثر اور پریشان نہ ہو۔ بڑی سے بڑی طاقتیں بھی اس وباء کے سامنے گھٹنے ٹیک چکی ہیں، بڑی سے بڑی معاشی و عسکری اعتبار سے دنیا کو اپنی دن دگنی رات چگنی کامیابی وکامرانی پر دھاک بٹھانے والی عالمی طاقتیں بے بس ہو کہ رہ گئی ہیں، روزانہ کی بنیاد پر کورونا کیسز میں اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے، اب تک کے امداد و شمار کے مطابق کورونا سے بری طرح متاثر ملک سرفہرت امریکہ ہے۔
جہاں کورونا متاثرین کی تعداد چار لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے، اسی طرح اس جان لیوا وائرس نے پوری دنیا میں تیزی سے اپنے پنجے گاڑھے ہیں جس کے نتیجہ میں پوری دنیا میں یکدم سے کوئی بریک لگ گئی ہو، باوجود اتنے وسائل اس قدر مادی ترقی ٹیکنالوجی کی دنیا اور اس پر عبور سب کچھ دھرا اور بے بس نظر آتا ہے۔دنیا کی اتنی ترقی اور ایک چھوٹے سے جرثومے نے یہ بات واضح کردی کہ انسان چا ہے جتنی ترقی کرلے ساری قدرت خدا کے اختیار میں ہے۔ دنیا کا نام نہاد واحد سپر پاور ملک امریکہ اس وقت اس مہلک وباء سے بہت بری طرح متاثر ہے، جوکہ اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ سپر پاور صرف ایک خدا کی ذات ہے، تمام ممالک اس وقت کورونا کی ویکسین کے منتظر ہیں اس کہ علاوہ انکے پاس اور کوئی راستہ نہیں۔
بحیثیت مسلمان ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ اللہ پاک انسان کو دے کر بھی آزماتا ہے، تو چھین کر بھی، اس آزمائش کی گھڑی سے ہمیں اللہ پاک کی ذات پر پختہ یقین ہی نجات دلا سکتا ہے، ہمیں اللہ کے حضور رجوع کرنا ہے، ہمارے دین نے ہمیں یہ نہیں سکھایا کہ مشکل کی گھڑی میں ہم بے بسی اور لاچاری کا مظاہرہ کریں بلکہ اس مشکل وقت میں ہمیں اللہ پاک سے اپنے اعمال کی معافی مانگ کر اس وباء کے خاتمے کے لئے دعا کرنی چاہئے، ہمارا یہ ایمان ہے کہ زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے، وہی بیماری دینے والا تو وہی شفاء دینے والا ہے، وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد پاک ہے۔
ترجمہ: لوگوں! ایک مثال بیان کی جارہی ہے، اب اسے کان لگا کر سنو! تم لوگ اللہ کو چھوڑ کر جن جن کو دعا کے لئے پکارتے ہو، وہ ایک مکھی بھی پیدا نہیں کر سکتے چاہے اس کام کے لئے سب کے سب اکھٹے ہوجائیں، اور اگر مکھی ان سے کوئی چیز چھین کر لے جائے تو وہ اس سے چھڑا بھی نہیں سکتے ایسا مانگنے والا بھی کمزور (بودا) ہے، اور جس سے مانگا جارہا ہے وہ بھی۔ (سورت الحج آیت 73)
پس یہ بات واضح ہوگئی کہ اس مشکل وقت میں ہمیں اللہ پاک کو راضی کرنا ہے، اپنے گناہوں کی معافی مانگنی ہے، بے شک وہ معاف کرنے والا غفور و رحیم ہے، موجودہ حالات کو سامنے رکھ کہ مجھے خلیفہ ہارون رشید کے زمانے کا بہلول نامی ایک درویش کا مشہور واقعہ یاد آیا، ایک دن وہ درویش بازار میں بیٹھا تھا کسی نے سوال کیا کیا کر رہے ہو، بہلول نے جواب دیا کہ بندوں کی خدا سے صلح کروا رہا ہوں، اس شخص نے سوال کیا تو کیا بنا، بہلول نے جواب دیا اللہ تو مان رہا ہے پر بندے نہیں مان رہے، کچھ وقت بعد اسی شخص کا گزر قبرستان سے ہوا اس نے دیکھا بہلول درویش قبرستان میں بیٹھا ہے۔
قریب جاکر پوچھا بہلول کیا کر رہے ہو، بہلول نے جواب دیا بندوں کی اللہ سے صلح کروا رہا ہوں، اس نے پوچھا پھر کیا بنا تو بہلول نے جواب دیا آج بندے تو مان رہے ہیں پر اللہ نہیں مان رہا،میرے نزدیک دنیا کا یہی حال ہے، بڑے بڑے علمائے دین محدثین نے زور لگایا کہ ابھی وقت ہے اللہ پاک سے صلح کرلو ورنہ بعد میں بندے تو راضی ہونگے پر خدا راضی نہیں ہوگا، اللہ پاک فرماتے ہے ترجمہ: اور ہم نے انہیں (قیامت کے) بڑے عذاب سے پہلے (دنیا کے) چھوٹے عذاب کا مزہ ضرور چکھائیں گے، شاید کہ وہ پلٹ آئیں۔ (سورت السجدہ آیت 21)
یہ وقت خدا کو راضی کرنے کا ہے، بڑی بڑی طاقتیں اس چھوٹے سے جرثومے آگے لاچار نظر آتے ہیں، عبادت و ریافت اور دعاؤں کی کثرت سے ہی اللہ راضی ہوگا، اگرچہ مسجدیں بند ہیں لیکن خدا کو راضی کرنے کی لئے خلوص نیت کا ہونا ضروری ہے، ایک شعر ہے:
دلوں کی عمارتوں میں کہیں بندگی نہیں اور پتھر کی مسجدوں میں خدا ڈھوندتے ہو
دل کی عمارت میں بندگی پیدا کریں، اللہ کے حضور سچے دل سے توبہ کریں یہ آزمائش کا وقت ہے
یہ وقت انسانیت سے محبت کا ہے۔ضرورت مندوں کے کام آنے آنے کا وقت ہے، بھوکوں کو کھانا کھلانے کا وقت ہے، ایک ہوکے انسانیت کے لئے کام کرنے کا وقت ہے۔ ہمیں پختہ یقین ہوکہ ان سب مشکلات کا سامنہ کرنا ہے، ہمارا عقیدہ ہے کہ ہم خلوص نیت کے ساتھ ایک ہوکر خدا کے حضور توبہ کرینگے اور اس مشکل گھڑی میں ایک دوسرے کا ساتھ دینگے تو خدا کی زات ضرور ہم پر رحم کھا کر اس وباء کو پوری دنیا سے ختم کردیگی، ہمیں اللہ پاک سے ہر وقت دعا کرنی ہے کیونکہ وہی ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔