کراچی جو اس وقت دو کروڑ سے زیادہ آبادی کا شہر ہے یہاں بہت سے رفاعی ادارے اور سماجی رہنما اپنے حصے کا کام کررہے ہیں جس میں صحت کے شعبے میں ڈاکٹر ادیب رضوی ایس آئی یو ٹی انڈس اسپتال کے ڈاکٹر عبدالباری اپنے کام کے حوالے سے جانے جاتے ہیں۔ حضرت علی نے فرمایا ہرشخص کی لوگوں میں قدر وقیمت اور احترام اس کے ہنر سے ہے۔انسان اپنے لئے توہر کوئی جیتے ہیں لیکن کچھ لوگ ہوتے ہیں جو دوسروں کے لئے جیتے ہیں وہ اللّہ کے خاص بندے ہوتے ہیں جو اللّہ کے فضل و کرم سے اپنے آپ کو انسانیت کی خدمت کے لئے وقف کردیتے ہیں۔
کراچی میں کہیں سرکاری اسپتال موجود ہیں جو عوام کو صحت کی سہولیات دے تو رہے ہیں لیکن کچھ نہ کچھ کوتاہی کہیں نہ کہیں کوئی کمی رہ ہی جاتی ہے آئے دن ہمیں ان اسپتالوں کے بارے میں سننے کو ملتا ہے جس سے عوام سرکاری اسپتالوں سے علاج کرانے سے کتراتے ہیں لیکن کراچی میں ایک ایسا سرکاری اسپتال بھی ہے جس میں دل کا مکمل علاج نہ صرف فری ہے بلکہ کسی بھی اچھے پرائیویٹ اور بین الاقوامی اسپتال سے بہتر سہولیات مریضوں کو دی جارہی ہے جسکی شہرت کے چرچے بین الاقوامی سطح پر بھی ہورہے ہیں۔
جی میں بات کررہا ہوں کراچی کے قومی ادارہ برائے امراض قلب جسکو عام زبان میں بڑا کارڈیو اور جناح کارڈیو کہا جاتا ہے۔ جہاں پر آپ اپنے مریض کو داخل کروادیں اس کے بعد آپ کی ذمہ داری ختم ہوجاتی ہے ویسے پاکستان پیپلزپارٹی پر کافی تنقید کی جاتی ہے لیکن یہ پیلزپارٹی کا سندھ کے عوام کے لیے بہت بڑا تحفہ ہے۔
جس کے کہیں سیٹلایٹ سینٹر سندھ کے دوسرے شہروں اور جگہ جگہ اب چیسٹ پین یونٹ بھی رکھے گئے ہیں جس سے دل کے مریضوں کوفی الفور ایمرجنسی کی صورت علاج مہیا کیا جارہا ہے، کہیں بڑی بڑی سرجریاں کی جارہی ہیں۔ جس میں امیر غریب کی تمیز کئے بغیر صحت کی تمام سہولیات فری دی جاتی ہیں۔
ان میں اگر پروفیسر ندیم قمر،ڈاکٹر ملک حمید اللہ اور حیدر اعوان کا ذکر نہ کیا جائے تو زیادتی ہوگی یہ وہ لوگ ہیں جنکی وجہ سے اس اسپتال میں علاج و معالجے کی تمام سہولیات بالکل فری دی جارہی ہیں۔ اسپتال میں تمام علاج بالکل ہے۔یادرہے دل کے مریضوں کا علاج کافی مہنگا ہوتا ہے اگر بات کی جائے تو وہاں کے مسیحا جن کو اپنی رات کی نیند سے زیادہ دوسروں کے درد کا احساس رہتا ہے جنہیں اپنییدن کے سکون سے زیادہ دوسروں کی تکلیف کا احساس رہتا ہے، ایسی شخصیت جس کا موبائیل کبھی سائلنٹ پر نہیں ہوتا، جو امیر و غریب میں فرق نہیں کرتے جن کی نیند کبھی گہری نہیں ہوتی جن کے پاس کوئی بہانہ نہیں ہوتا۔
جو کبھی عذر پیش نہیں کرتے جو کبھی کسی کو“نہ”نہیں کہتے. اس عظیم شخصیت کا نام“ڈاکٹر ملک حمید اللہ خان ”ہیں. انکا تعلق میانوالی سے ہے آپ سن 1987 میں میڈیکل کے شعبہ میں قدم رکھا اور پہلی ڈیوٹی قومی ادارہ برائے امراض قلب میں خدمات سرانجام دیناشروع کیں، یوں دیکھتے دیکھتے وہ پورے سندھ کیلئے مسیحا بن گئے۔انتہائی تجربہ کار اور ان کے ہاتھوں میں اللّہ نے شفا عطا کی ہے.ایڈمنسٹرایٹر ہوتے ہوئے بھی انکے کمرے کے باہر مریضوں کی ایک بڑی لائن لگی ہوتی ہے اللہ نے بڑی خاکسار طبیعت دی ہے۔
شروع کے ایام کے کچھ عرصے بعد ڈاکٹر صاحب ایمرجنسی کے انچارج کے طور تعینات ہوئے. جسے انہوں نے بخوبی اور خوش اسلوبی سے ادا کیا حالانکہ آپ کے سرکاری اوقات کار مقرر ہیں لیکن آپ نے ان اوقات سے زیادہ وقت اسپتال میں موجود ہوتے ہیں یہی وجہ ہیکہ آج اس ادارے کے ایڈمنسٹرایٹر ایگزیکٹو کے عہدے پر فائز ہیں۔لیکن سلام ہو اس مسیحا پر جن کی خدمت انسانیت کیلئے کوئی وقت مقرر نہیں،کوئی موسم نہیں رات 2 ہو یا 3 بجے ہو یا سردیوں کی ٹھٹھرتی سردی ہو، یا کڑاکے کی گرمی کے 3 بجے کوئی فرق نہیں پڑتا، بلاتفریق چلے آتے ہیں نہ سردی کا ذکر کرتے ہیں۔
نہ گرمی کا, نہ نیند سے جاگنے کا نہ دن کے سکون کا بس چلے آتے ہیں. ان کا معمول ہے کہ کوئی رات کے دو یا تین بجے بھی کال کرکے بلائیں انکا موبائیل انکے سراہنے ہر وقت آن ہوتاہے کبھی کسی کو بند نہیں ملا، اور آج تک ایک ایسا کوئی واقعہ نہیں کہ کوئی بلائے اور نہ پہنچا ہو.۔وہ یہ نہیں دیکھتے یہ امیر ہے یا غریب، ان کی نظر میں سب یکساں، ابھی آپ سوچ رہے ہونگے کہ جس طرح سے وزٹنگ کے وہ پیسے لیتے ہونگے نہیں بلکہ نہیں کسی سے ایک روپیہ تک وصول نہیں کرتے، اپنا کنونس لیکر پہنچ جاتے ہیں اور حسب ضرورت اس وقت مریض کی جو ضرورت ہوتی ہے فراہم کرتے ہیں اور غریب نادار اور مستحق مریضوں کیلئے دوائی بھی مہیا کرتے ہیں۔
ملازمین کے ساتھ انکا برتاؤ والد اور بھائی جیسا ہوتا ہے یہی وجہ ہے اسپتال کے خاکروب سے لیکر پروفیسر تک انکو عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انکی انسانیت کی خدمت کے کاموں میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی، آج ہمیں چاہئیے ایسے عظیم انسانیت دوست مسیحاؤں کو سلام پیش کریں۔آخر میں ہم دعا کرتے ہیں کہ اللّہ ایسے عظیم مسیحاؤں کو سلامت رکھے اور ان کی توفیقات خیر میں اضافہ فرمائے.
درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کیلئے کچھ کم نہ تھے کروبیاں.