|

وقتِ اشاعت :   April 20 – 2020

عالمی سطح پر کرونا کی وباء نے جو تباہی مچارکھی ہے پاکستان اور خصوصاً بلوچستان میں اس کے اثرات نے روزمرہ کی زندگی کو مفلوج کر کے رکھ دیا ہے تمام سرکاری اور نجی ادارے بند ہیں اور صوبائی سیکریٹریٹ میں محدود پیمانے پر چند محکموں میں سرکاری امور نمٹاے جارہے ہیں، وفاقی حکومت کے ساتھ ساتھ صوبائی حکومت بھی عوام کی جان کے تحفظ کے لیے سرجوڑ کر بیٹھی ہوئی ہے کرونا کو مزید پھیلنے سے روکنے کے لیے متعدد احتیاطی تدابیر پر عمل درآمد کیا جا رہا ہے۔

محدود وسائل کے باوجود صوبائی حکومت نے ابتک متعدد ٹھوس اقدامات کئے ہیں، حکومت کی ہدایت پر صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی نے صوبے کی غریب اور مزدور پیشہ افراد کی خاندانوں کو خوراک کی فراہمی کے لیے ایک میکانزم تیار کر رکھا ہے، جس کے تحت مستحق اور نادار خاندانوں کو راشن کی فراہمی جاری کر دی گئی ہے اور صوبائی حکومت نے ریلیف فنڈ قائم کیا ہے، جس سے صوبے کے 32 اضلاع کے ڈپٹی کمشنر کو ایک ایک کروڑ روپے اور امدادی رقم فراہم کی گئی ہے اور سختی سے ہدایت کی ہے کہ اس رقم کو مقامی سطح پر قائم کمیٹیوں کی نشاندہی پر صرف اور صرف مستحق افراد میں تقسیم کیاجائے اس حوالے سے کسی بھی شکایت کا سختی سے نوٹس لیا جائیگا، پی ڈی ایم اے نے صوبائی حکومت کی ہدایت اور طریقہ کار کے مطابق تما م اضلاع میں راشن کی فوری فراہمی کے لیے تمام دستیاب وسائل بروئے کار لا چکی ہے۔

جس کے مثبت نتائج آنا شروع ہو گئے ہیں اور عوام کی اکثریت نے حکومتی اقدامات پر سکھ کا سانس لیا ہے اور پر امید ہے کہ موجودہ صوبائی حکومت عوام کی معاشی مشکلات کے پیش نظر مزید فنڈ کا وفا ق سے مطالبہ کرے گی گذشتہ روز وزیر اعظم عمران خان کا ایک روزہ دورہ بلوچستا ن کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کی نشاندہی پر وزیر اعظم عمران خان نے اس حقیقت کا خود اظہار کیا کہ بلوچستان رقبے کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے، خدانخواستہ اگر کرونا صوبے کے دیگر علاقوں میں پھیلا تو ان پر قابو پانا صوبائی اور وفاقی حکومتوں کے قابو میں نہیں آئے گا اور اس کے پھیلنے سے ہولناک تباہی آ سکتی ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ بلوچستان میں دیگر احتیاطی تدابیر کے ساتھ ساتھ لاک ڈاؤن کو برقرار رکھا جائے۔

جس کے پیش نظر صوبائی حکومت نے لاک ڈاؤن کی مدت میں 21 اپریل تک توسیع کی ہے اور صوبائی حکومت صوبے میں عوامی سطح پر قائم تنظیموں، انجمن تاجران، چیمبر آف کامرس و دیگر سماجی و سیاسی تنظیموں سے مسلسل رابطے میں ہے اور انہیں حکومتی اقدامات اور احتیاطی تدابیر پر اعتماد میں لیا ہے اور انہیں اس وبا کے تباہ کن اثرات کے تدارک کے لیے حکومتی احکامات پر عمل کر نے پر قائل کیا ہے، جو صوبائی حکومت کی ایک بڑی کامیابی ہے۔ صوبائی حکومت نے عوام کو کرونا سے تحفظ کے لیے محکمہ صحت کو الر ٹ کر کے بھی اہم ٹاسک دیا ہے۔

جس کے تحت صوبے کے تمام بڑے ہسپتالوں کو کرونا کے ٹیسٹ اور علاج پر مامور ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف کو تمام مطلوبہ کیٹس سیناٹائزر، ما سک اور دیگر ضروری اشیاء قلیل مدت میں فراہم کرچکی ہے، اس ضمن میں ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف کو تمام مطالبات تسلیم کر کے ضروری سامان سے لیس کر دیا گیا ہے، جس سے ان کے تحفظات ایک حد تک دور ہو گئے ہیں گذشتہ دنوں ینگ ڈاکٹرز کی جانب سے ایک احتجاجی مظاہرہ کیا گیا جس میں ان کا مطالبہ تھا کہ وہ کرونا سے تحفظ، کے پیش نظر انہیں کیٹس، سیناٹائزر اور دیگر ضروری اور مطلوبہ سامان فراہم کیا جائے، جس پر وزیراعلیٰ جام صاحب نے فوری نوٹس لیتے ہوئے واضح کیا کہ ڈاکٹرز کے مطالبات حق بجانب ہے۔

لیکن ان کا طریقہ کار مناسب نہیں، احتجاج کے دن عوام کو ذہنی کوفت ہوئی ہے جس پر ہمیں افسوس بھی ہے، ہمیں ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل سٹاف کی جان اتنی عزیز ہے، جتنی عوام کی ہے اگر ڈاکٹرز کی تنظیم حکومتی نقطہ نظر کو سمجھ لیتے تو شاہد اس دن احتجاج کرنے کی کوئی ضرورت پیش نہیں آتی، تاہم وزیراعلیٰ کی ہدایت پر صوبائی وزیر زراعت زمرک اچکزئی کی سربراہی میں صوبائی وزراء کی ایک ٹیم نے ینگ ڈاکٹرز سے رابطہ کر کے ان کے جائز مطالبات تسلیم کرتے ہوئے انہیں مطلوبہ ضروری طبی آلات فراہم کئے طبی عملہ محفوظ رہے گا تو وہ کرونا سے متاثرہ افراد کے علاج کے قابل ہونگے۔ کرونا سے لڑنے والوں میں ڈاکٹرز اور دوسرے طبی عملہ صف اول کے مجاہد ہیں جن کا تحفظ ہماری ذمہ داری ہے۔

جس سے ہم غافل نہیں رہ سکتے۔صوبائی حکومت نے غریب مزدور پیشہ اور غریب خاندانوں کو راشن کی فراہمی اور کرونا سے بچاؤ کے لیے الیکٹرانک، پرنٹ میڈیا اور سوشل میڈیا پر متعدد احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے لیے عوام میں آگاہی مہم بھی شروع کر رکھی ہے اور مختلف شہروں میں جگہ جگہ اور اہم پبلک مقامات پر انٹی کرونا اسپرے اور ہاتھ دھونے کے لیے چھوٹی بڑی ٹینکیاں نصب کی گئی ہیں جس کے ساتھ سیناٹائزر بھی فراہم کیا گیا ہے، تاکہ عام آدمی اس سے استفادہ کر سکے اورعوام کو خبرادر کیا گیا ہے کہ دو سے زیادہ افراد ایک جگہ جمع نہ ہو ں اور ایک دوسرے سے 5 سے 6 فٹ تک فاصلہ ضروررکھیں تاکہ یہ مہلک بیماری ایک دوسرے کو نہ لگ جاسکے۔

صوبائی اور وفاقی حکومت کی عوام کی کرونا سے آگاہی مہم میں صوبے میں سماجی اور فلاحی تنظیموں نے بھی اپنا کردار ادا کرنا شروع کر دیا ہے غریب اور مستحق افراد میں راشن خوراک اور نقد رقم کی فراہمی کے علاوہ شہر کے اہم پبلک مقامات پر سائن بورڈ بھی آویزاں کیے گئے ہیں، صوبائی حکومت کی بروقت کرونا سے بچاؤ کے لیے اقدامات اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے صوبے میں کرونا سے کم سے کم 225 افراد متاثر ہوئے ہیں،جن میں ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل سٹاف کے چند ممبر بھی شامل ہیں اور ان کی حالت خطرے سے باہر ہے اور انہیں آئیسولیشن میں رکھا گیا ہے۔

صوبائی حکومت کی بچوں کی تعلیم پر بھی نظر ہے اور تعلیمی اداروں کو 31 مئی تک بند کرنے کا اعلان کے علاوہ ہدایت کی گئی ہے کہ تعلیمی ادارے فیس میں کمی کے علاوہ آن لائن اور تدریس کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے، تاکہ بچوں کا قیمتی وقت ضائع نہ ہو، جس پر عملدرآمد کرتے ہوئے بعض تعلیمی اداروں نے آن لائن پڑھانے کا سلسلہ شروع کررہا ہے درس و تدریس کی آن لائن کے ذریعے پڑھانے کا نظام جو کہ صوبے کے بعض بڑے شہروں تک محدود ہے، اگر31مئی تک کرونا کے اثرات بدستوا رہے تو صوبائی حکومت صوبے کے دیگر اضلاع میں بھی پڑھانے کا متبادل طریقہ کار متعارف کرئے گی، اس ضمن میں صوبائی محکمہ تعلیم کئی قابل عمل تجاویز پر غور کر رہی ہے۔

صوبے کے دیگر علاقوں کی طرح ضلع گوادر بھی کرونا وائرس COVID-19 کی وجہ سے متاثر ہو رہا ہے،جوکہ مستقبل میں ملک کا اقتصادی اور بین الاقوامی تجارت کا حب ہے میں روزمرہ کی زندگی ٹھپ ہو کر رہ گئی ہے اور سی پیک کی جاری ترقیاتی سرگرمیاں محدود ہو کر رہ گئی ہے عوام کی بڑی اکثریت جو ماہی گیری کی صنعت سے وابستہ ہے سمندر پر لاک ڈاؤن کی وجہ سے نان شبینہ کو ترس گئے ہیں ضلع گوادر کا صوبے کے دیگر اضلاع سے عوامی رابطہ کٹ گیا ہے عوام کی شہر سے باہر جانے اور دوسرے علاقوں سے آنے کے مواقع محدود ہونے کی وجہ سے تمام کاروبار بند ہے کوئی کمرشل فلائٹس گوادر نہیں آرہی اور کراچی سے بذریعہ سڑک بھی رابطہ منقطع ہے تاہم ضلعی انتظامی کی جانب سے اہم اقدامات کے پیش نظر شہر میں ذخیرہ ا ند وزی اور منافع خوروں پر کڑی نظر رکھی گئی ہے۔

جس کی وجہ سے اب تک شہر میں کسی چیز کی کمی کی عوامی شکایت نہیں آئی ہے مقامی انتظامیہ ڈپٹی کمشنر گوادرکیپٹن (ر) محمد وسیم کی سربراہی میں 24 گھنٹوں میں کئی بار لاک ڈاؤن کی خود نگرانی کر رہے ہیں اور صوبائی ڈیزاسٹر اتھارٹی کی جانب سے راشن اور دیگر اشیاء ضروری کو مستحق افراد اور غریب اور نادار لوگو ں میں تقسیم کو یقینی بنانے کے لیے ضلعی سطح پر ایک مقامی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے، عوام میں ان اشیاء کی تقسیم کے لیے منفرد میکانزم بنایا گیا ہے، جس میں اب تک زیادہ مشکلات درپیش نہیں، ضلعی انتظامیہ کی سخت نگرانی کی وجہ سے شہر اور شہر سے باہر لوگوں کا کوئی ہجوم نظر نہیں آرہا، شہر میں کروناکے اثرات کو ذائل کرنے کے لیے انٹی کرونا سپرے وقتاً فوقتاً کروایا جا رہا ہے۔

اور صوبائی ڈیزاسٹر اتھارٹی کی جانب سے عوام کی سہولیات کیلئے واٹر کین اور ٹینکوں کے ساتھ سیناٹائزر بھی دستیاب ہیں اور شہر میں صفائی کا خاص خیال رکھا جا رہا ہے، صوبائی حکومت اور ضلعی انتظامیہ کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات اور کرونا سے بچنے کے لیے احتیاطی تدابیر پر شہری بھرپور طریقے سے تعاون کر رہے ہیں۔صوبائی محکمہ تعلقات عامہ ضلعی اور صوبائی سطح پر حکومتی اقدامات سے عوام کو وٹس ایپ، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سوشل میڈ یا کے ذریعے بروقت آگاہ کرنے کے لیے ہمہ وقت کوشاں ہے اور کرونا وائرس سے بچاؤ کے لیے شروع کردہ حکومتی مہم کو کار آمد بنانے کیلئے مختلف زرائع استعمال کررہا ہے۔مقامی انتظامیہ کی اقدامات اور عوام کو دی جانے والی ریلیف سرگرمیوں میں مصروف عمل ہے۔

عوام کے جان کا تحفظ حکومت کی اولین تر جیح ہے۔اس وقت جو صوبائی حکومت صوبے کے دسیتاب وسائل کو عوام پر خرچ کرنے کے علاوہ وفاقی حکومت کے ساتھ مسلسل رابطہ میں ہے، صوبائی حکومت کی کوششوں سے وفاقی حکومت صوبے کی آٹھ لاکھ خاندانوں میں بینیظر انکم سپورٹ سکیم اور احسا س پرو گرام سے ماہانہ مبلغ 12000/- روپے فر اہمی بھی شروع کر رکھی ہے۔جس سے صو بے کے کئی نادار خاندان مستفید ہو سکیں گے۔ روزانہ بنیا دو ں پر تما م اضلا ع کے ڈپٹی کمشنر ز کی کارکردگی کی ما نیٹر نگ کی جا رہی ہے۔ڈپٹی کمشنرگوادر کی جانب سے ماہی گیروں ودیگر مزدور پیشہ افراد کے لیے وضح کردہ طریقہ کار کو خصوصی طور پر سراہا جارہاہے۔