|

وقتِ اشاعت :   April 21 – 2020

آواران بدل چکا تھا:
میں آواران میں تھا دیگر دوستوں میں اسد عطا، یاسر ناصر، اکرم اکبر، تنویر میروانی، وسیم میروانی، حسن میروانی، نبیل ارمان، جلیل معراج، شکیل بلوچ، سالم بلوچ اور دیگر احباب نے ہمیں آواران میں جوائن کیا تھا۔ پروین ناز کراچی میں جبکہ عابد میر، نواز فتح اور نجیب اللہ سرپرہ کوئٹہ میں پروگرام کو ترتیب دینے میں مصروف تھے۔ اسٹوڈنٹس کی ایک ٹیم جو کراچی، کوئٹہ اور اوتھل میں مقیم تھی سب سے رابطہ جاری تھا۔ ڈگری کالج آواران کے اسٹوڈنٹس کی بڑی تعداد بطور رضاکار ہمارے ساتھ شامل ہو چکی تھی۔ پروفیسر شکیل بلوچ اور اس کا اسٹاف بھی ہمارے ساتھ تھاہم پروگرام کو ترتیب دینے اور منیجمنٹ کی تیاریاں کر رہے تھے۔

پروین ناز کراچی میں مقیم ٹیم کو ترتیب دے رہے تھے۔ برکت اسماعیل صاحب جنہوں نے آنے کی حامی بھر کر ہمارے حوصلے بلند کیے تھے، وہ کیچ سے ہمیں جوائن کرنے آرہے تھے۔ زرگل زبیر کراچی میں تھے انہوں نے ہماری دعوت قبول کی تھی۔ خلیل رونجھو نے خوشی خوشی آواران والوں کا دعوت نامہ قبول کیا۔ دیگر آنے والے مہمانان میں کلثوم بلوچ، ناز بارکزئی، سعدیہ بلوچ، چندن ساچ، ڈاکٹر منظور بلوچ، شریف قاضی، امان قاضی کو آنا تھے بوجہ مجبوری نہ آسکے۔ پروفیسر محمد حسین اس پروگرام کے بنیادی رکن تھے جو کالج کی ذمہ داریوں اور ایک اہم اجلاس کی وجہ سے نہ آسکے۔

البتہ برکت اسماعیل، پروفیسر رمضان بامری، بشیر بلوچ، زیتون کریم، زرگل زبیر، قندیل بلوچ، خلیل رونجھو، زاہد بلوچ، صدیق مینگل، ظہیر ظرف تشریف لا کر پروگرام کو پراثر بنا گئے۔ کراچی کی ٹیم کو پروین ناز اور اسداللہ قمبرانی نے سنبھالا دیا اور انہیں آواران لے آئے کراچی کی ٹیم میں ایک اہم نام نوروز غنی بھی شامل تھے جس نے دو روزہ پروگرام کو اپنی فوٹوگرافی میں قید کر لیا۔ اْدھر عابد میر، نجیب اللہ سرپرہ اور فرید مینگل کے ہمراہ کوئٹہ سے تشریف لے آئے،اس میلے کو اٹینڈ کرنے جہاں باہر سے مہمان آواران آئے وہیں آواران سے کئی چہرے اس پروگرام میں گفتگو کا حصہ بنے ان میں شاری بلوچ، نعیمہ بلوچ، نسرین حاصل، مریم بلوچ، مقبول وفا، شمیم نصرت اور دیگر کئی نام شامل تھے۔

یوں تین روز تک آواران جگمگا اٹھا تھا۔ اس میں موضوعات تھے، سیشنز تھے، احمد خان کا ڈانس پرفارمنس تھا، شعری دیوان تھا، آرٹ اور مضمون نویسی کے مقابلے تھے۔ آرٹ کی نمائش تھی۔ آواران ایک بار پھر سے بدل چکا تھا۔ تعلیمی و ادبی میلہ چاروں طرف اپنے رنگ بکھیر چکا تھا۔ میلے کا پہلادن اختتام پا چکا تھاکہ شام کو ایک اور بری خبر آچکی تھی کہ ڈپٹی کمشنر آواران حسین جان بلوچ کا تبادلہ کر دیا گیا ہے اب خدا جانے ایسی کیا نوبت آن پڑی انہیں ٹرانسفر کرنے کا۔آواران کا تعلیمی و ادبی اختتام پذیر ہو چکا تھا لیکن اختتام پذیر ہونے سے قبل خوبصورت یادیں سمیٹ چکا تھا۔

خواتین و بچیوں کی اتنی بڑی تعداد جمع ہو کر آواران کو صنفی امتیاز سے بالاتر ثابت کر چکا تھا۔ یہ اعتماد کی ایک اہم کڑی تھی جس کی فضا ہم قائم کرنے میں کامیاب ہو چکے تھے۔ ڈپٹی کمشنر آواران نے الوداع ہونے سے قبل کہا تھا”مجھے آپ لوگوں سے متعلق جو رپورٹنگ ملی تھی اسے آپ لوگوں نے اپنی کنٹری بیوشن اور کامیاب پروگرام کے انعقاد کے ذریعے غلط ثابت کرکے دکھایا“ اب خدا جانے یہ کون سے لوگ تھے جو اس طرح کی رپورٹنگ کیا کرتے تھے اور ان کے ارادے کیا تھے۔ نہ ہم نے ان سے پوچھا اور نہ ہی انہوں نے بتانا مناسب سمجھا۔

البتہ جاتے جاتے ان بچے اور بچیوں کے لیے جس نقد انعام کا اعلان وہ کر گئے تھے، اپنے اسسٹنٹ کے ذریعے ہم تک پہنچایا اور ہم وہ رقم پوزیشن ہولڈرز تک پہنچانے میں کامیاب ہوئے۔اس وقت جن الفاظ کو میں کشید کر رہا ہوں میرے سامنے بے شما رچہرے نمودار ہو کر آرہے ہیں ایک طویل فہرست ہے ان نوجوانوں کی ہے جنہوں نے اس پروگرام کو کامیاب بنایا۔ بلا غرض و لالچ اس پروگرام کوکامیاب کرنے میں جٹے رہے۔ دل تو چاہ رہا ہے کہ سب کے نام کشید کرتا چلا جاؤں مگر فہرست اتنی طویل ہے کہ ایک صفحہ کے اندر سما نہیں پاتے۔

تین روزہ آرٹ ورکشاپ کا انعقاد:

پروگرام سے فراغت پاتے ہی ایک اور ٹاسک ہمارے سامنے تھا۔آواران کا تعلیمی و ادبی میلہ اتنا وسیع تھا کہ موجودہ ٹاسک ہمیں قدرے آسان محسوس ہونے لگا۔ سو احمد خان اور زباد محمود اس ٹاسک کی انجام دہی کے لیے تیار تھے۔ ہم تین روزہ آرٹ ورکشاپ کی تیاری کر چکے تھے۔ سکولوں کو دعوت نامہ ہم دے آئے تھے۔ نو سکولوں سے 75طلبا و طالبات اور اساتذہ اس تین روزہ آرٹ ورکشاپ میں شریک ہوئے۔ اس تین روزہ آرٹ ورکشاپ سے ایک چیز جو مجھے بھا گئی کہ وہ بچے اور بچیاں جو سکول آنے سے کتراتی ہیں تین روزہ آرٹ ورکشاپ میں ہم نے انہیں کبھی بھی تھکا ہوا نہیں پایا،وہ تین دن تک رنگوں کے ساتھ کھیلتے رہے۔

تین روزہ آرٹ ورکشاپ کے اختتام پر جب ہال میں اختتامی تقریب منعقد ہونے چلا جا رہا تھا تو ہال ننھے منے آرٹسٹوں کی تخلیق سے مزین تھے، دیواریں آنے والوں کو اپنی جانب کھینچتی چلی جا رہی تھیں۔ ہم شرکاء میں سرٹیفکیٹس تقسیم کر کے اس تین روزہ ورکشاپ کو خوبصورت اختتامیہ دے چکے تھے۔

سکول کی مرمت اور ٹیم پر پتھراؤ:

ورکشاپ سے فراغت پاتے ہی ایک بار پھر سے میرا رخ اپنے گاؤں عبدالستار گوٹھ کی جانب تھا۔ جہاں ایک اور اہم کام سرانجام دینا تھا گو کہ ہم عبدالستار گوٹھ کی سکول کو رنگین بنا چکے تھے مگر ہم نے ایک چیز محسوس کی تھی کہ سکول دروازے اور کھڑکیوں سے عاری تھے۔ واش روم کا نظام درہم برہم تھا۔جس سے بچے اور بچیوں کا تعلیمی سلسلہ متاثر ہوتا ہوا نظر آرہا تھا۔ ہم نے اس نظام کو ٹھیک کرنے کا بیڑا ایک بار پھر سے اپنے کندھوں پر اٹھا لیا۔ اس کارخیر کے لیے بی اینڈ آر کے انجینیئر ذاکر حسین کا ڈونیشن کام آیا۔ ہم نے ان پیسوں کی دروازے اور کھڑکیاں اور واش روم کا سامان منگوایا۔

اور خود وہاں گاؤں چلا آیا۔دروازے اور کھڑکیوں کا کام جاری تھا،ساتھ میں واش روم کی مرمت کا سلسلہ شروع کرد یا۔ ایک چیز کی کمی جو ہم نے محسوس کی، وہ تھا سکول کا گراؤنڈ جو ناہموار ہو چکا تھا،اس کی صفائی اور اس کا لیول برابر کرنے کے لیے ہم نے ٹریکٹر منگوا کر اس پر کام شروع ہی کیا تھا کہ مقامی بااثر افراد اس کے آڑے آگئے۔ آتے ہی ہم پر پتھراؤ کرنا شروع ہو گئے، یہ نا سمجھ لوگ تھے مگر ان کو پتھر ان لوگوں نے تھمائے تھے جو نہیں چاہتے کہ سماج میں تبدیلی آئے۔ انہیں ڈر ہے اپنی بادشاہت کا شاہی تاج چھیننے کا۔ حملے کے نتیجے میں ہمارا ایک ساتھی زخمی ہوا، گراؤنڈ کا کام ہمیں ادھورا ہی چھوڑنا پڑا۔

اس واقعے کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ انتظامیہ حرکت میں آجاتی، ملزمان کو گرفتار کرکے کاروائی کرتی مگر ایسا نہ ہو سکا،ایک طرف سے ان عناصر کو قدوس بزنجو کی پشت پناہی حاصل تھی تو دوسری جانب خیرجان بلوچ اپنے ہمسائیوں کو ناراض نہیں کرنا چاہ رہے تھے۔ رہی بات انتظامیہ کی خاموشی کی وہ تو ہمیشہ مقتدر حلقوں اور نام نہاد نمائندگان کی کٹھ پتلی ہوتی ہے،یہاں بھی یہی ہوا۔ واقعے کو حسب معمول مٹی ڈال کر رفع دفع کیا گیا اور دوستوں کا مشورہ تھا کہ تمام سرگرمیاں ترک کرکے میں وہاں سے نکل جاؤں۔سو میں اگلے روز جھاؤ کو الوداع کہہ کر کراچی چلا گیا۔