|

وقتِ اشاعت :   April 21 – 2020

مغربی میڈیا میں ایک نئی بحث چھڑ چکی ہے کہ عراق کا نیا وزیر اعظم ایرانی حمایت یافتہ ہے۔ اس بات پر امریکی اور اسرائیلی حکام میں تشویش پائی جاتی ہے۔ اس کی پہلی وجہ یہ ہے کہ عراق میں ایرانی حمایت یافتہ سیاسی اور مذہبی گروہوں نے نئے نامزد عراقی وزیر اعظم مصطفی الکاظمی کی بھر پور حمایت کا اعلان کیا ہے۔ چونکہ امریکہ اور ایران عالمی سیاست میں روایتی حریف سمجھے جاتے ہیں اس لیے امریکہ کی پسند ایران کی نا پسند اور ایران کی پسند امریکہ کی ناپسندہوتی ہے،دوسری وجہ یہ ہے کہ ایران کی وزارتِ خارجہ نے نئے عراقی وزیر اعظم کی نامزدگی کا بھر پور خیر مقدم کیا ہے۔

ایران کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان عباس موسوی نے کہا ہے کہ ایران نے ہمیشہ عراق کی خود مختاری، اقتدارِ اعلیٰ، ارضی سا لمیت، وفاق اور سیاسی و جمہوری استحکام کی حمایت کی ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ عراق کی تاریخ میں پہلی بار دو مہینوں کے دوران تیسرے وزیرِ اعظم کے نام پر اتفاق کیا گیا ہے اور یہ بھی عراق کی تاریخ میں پہلی بار ہو ا ہے کہ عراق کی تمام سیاسی اور مذہبی پارٹیوں نے نئے نامزد وزیر اعظم مصطفی الکاظمی کے نام پر اتفاق کر لیا ہے۔

ان میں ہادی العامری کی قیادت میں الفتح الائنس، نوری المالکی کی قیادت میں دولتِ قانون، محمد الیاقوبی کی قیادت میں الفضیلہ پارٹی، صالح الفیاض کی قیادت میں العطا تحریک، مقتدیٰ الصدر کی قیاد ت میں الصدر تحریک، عراقی پارلیمینٹ کے اسپیکرمحمد الحلبوسی کی سر براہی میں اہلسنت کے سب سے بڑے اتحاد القوی العراقیہ، عمار حکیم کی قیاد ت میں الحکمہ الائنس،عراقی کردستان زون کے وزیرِ اعظم مسرور بارزانی، عراق کی تحریک عصائب اہل الحق کے سربراہ قیس الخز علی شامل ہیں۔

عراق کے صدر برہم صالح نے بھی مصطفی الکاظمی کی نامزدگی کے بعد کہا کہ مصطفی الکاظمی کو وزیر اعظم نامزد کرنے کے سلسلے میں عراق کی تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں اور گروہوں میں اتفاق رائے پایا جاتا ہے اور ہم نے عراق کے سیاسی عمل میں پائے جانے والے مشکل مرحلے اور شکوک و شبہات کو قبول کر لیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر مصطفی الکاظمی کے نام پر ہی کیوں اتفاق کیا گیا ہے، اوران میں اور سابق وزیر اعظم عدنان الزرفی میں کیا فرق ہے؟ پہلی بات یہ ہے کہ مصطفی الکاظمی ایک تجربہ کار شخصیت ہیں۔ وہ عراق کی انٹیلی جنس کے سربراہ اور صحافی بھی رہ چکے ہیں۔

پچھلے دنوں عراق میں جو مظاہرے ہوئے ان میں مظاہرین کا سب سے بڑا مطالبہ کرپشن کا خاتمہ تھا۔ماضی میں عدنان الزرفی پرکرپشن کے الزامات لگ چکے ہیں۔اور عراقی عوام کے خیال میں عدنان الزرفی اس عہدے کے لیے موزوں نہیں ہیں۔عراقی عوام کے خیال میں ملک کو سب سے بڑادر پیش مسئلہ کرپشن ہے۔ مصطفی الکاظمی کا کیرئیر کسی حد تک صاف ہے، اس لیے وہ کرپشن کے خاتمے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ عراق میں اس وقت غیر ملکی افواج کے انخلاء کا مسئلہ چل رہا ہے۔ عراق میں ایران کا بہت بڑا اثرو رسوخ ہے اور 3جنوری (قاسم سلیمانی، ابو مہدی المہندس) کے سانحے کے بعدعراق میں امریکی افواج کے خلاف سخت غم و غصہ پایا جاتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ جنوری میں عراقی پارلیمینٹ بھی غیر ملکی افواج کے انخلا کے متعلق بل پاس کر چکی ہے۔عراق کی بہت بڑ ی سیاسی جماعتیں جن میں الفتح الائنس، الحکمہ الائنس، اور عسکری تنظیمیں جن میں عراقی رضا کار فورس الحشد الشعبی، کتائب حزب اللہ اور عصائب اہل الحق شامل ہیں، امریکہ اور اس کی اتحادی افواج کے انخلا کا پرزورمطالبہ کر چکی ہیں اور عسکری تنظیمیں نہ صرف مطالبہ کر چکی ہیں بلکہ امریکی فوجیوں پرپے در پے حملے بھی کر چکی ہیں جس کی و جہ سے غیر ملکی افواج میں خوف و ہراس پایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلے دنوں امریکی سفارتخانے کی عین الاسد ایئر بیس منتقلی کی خبریں گردش کرتی رہی ہیں۔

کیونکہ پچھلے دنوں امریکی سفارتخانے کو بھی نشانہ بنایا جا چکا ہے۔اگر ایران اور اس کے حمایت یافتہ عراقی سیاسی و عسکری گروہ مصطفی الکاظمی کی حمایت کر رہے ہیں تو واضح ہے کہ مکمل امریکی انخلا ء سے متعلق نئے منتخب وزیر اعظم سے ان کی بات ہو چکی ہے جو کہ ایران اور اس کے حمایت یافتہ عراقی گروہوں کا سب سے بڑا مطالبہ ہے۔یہی وجہ ہے کہ امریکی حکام میں مصطفی الکاظمی کی بطور وزیر اعظم نامزدگی پر تحفظات پائے جاتے ہیں۔

امریکہ کو اسی بات پر تشویش ہے کہ اگر ایران اوراس کے حمایت یافتہ عراقی سیاسی و عسکر ی گروہ مصطفی الکاظمی کی بطورِ وزیراعظم نامزدگی کی حمایت کر رہے ہیں تو یقیناََ ایرانی حکام کو اس بات کی یقین دہانی کرائی جا چکی ہے کہ امریکی افواج کے مکمل انخلاء میں نئے منتخب وزیر اعظم بھر پور کردار ادا کریں گے۔ یاد رہے کہ سابق نامزد وزیر اعظم عدنان الزرفی پر ایران اور اس کے حمایت یافتہ عراقی سیاسی و عسکری گروہوں کو تحفظات تھے کہ وہ امریکی افواج کے مکمل انخلاء میں سنجیدہ نہیں۔

3جنوری قاسم سلیمانی اور ابو مہدی المہند س کے سانحہ کے بعد سے مشرق وسطیٰ خصوصاََ عراق میں امریکہ کا مستقبل خطرے میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی افواج کا عراق سے انخلا شروع ہو چکا ہے۔ کچھ دن پہلے عادل عبدالمہدی نے اعلان کیا تھا کہ امریکی فوج عراق کے چھے فوجی اڈوں سے باہر نکل چکی ہے اور اب صرف تین فوجی اڈے اس کے قبضے میں ہیں۔ خالی کیے گئے اڈوں میں القیارہ، الجبانیہ، القائم اور صوبہ نینوا و جنوبی بغداد میں قائم دو فوجی چھاؤنیاں شامل ہیں۔ امریکی فوجی اب صرف عراق کے عین الاسد، البلد اور التاجی چھاؤنیوں میں تعینات ہیں۔

جہاں تک عراق میں امریکہ کے مستقبل کی با ت ہے تو امریکہ کی تشویش بجا ہے کیونکہ ایران اور اس کے حمایت یافتہ عراقی سیاسی اور عسکری گروہوں کی طرف سے نئے منتخب وزیر اعظم کی نامزدگی کا بھر پورخیر مقدم اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ نئے منتخب عراقی وزیر اعظم مصطفی الکاظمی عراق سے امریکی افواج کے مکمل انخلا ء میں ایران کے ساتھ ہم آہنگی رکھتے ہیں جو کہ امریکہ اور اس کے اتحادی ہر گز نہیں چاہتے۔ایرانی حکام کی طرف سے نئے عراقی وزیر اعظم کے خیر مقدم سے واضح ہے کہ امریکہ اور اس کی اتحادی افواج کا عراق سے بوریا بستر گول ہوتا نظر آ رہا ہے۔