تعلیم ایک معاشرتی عمل ہے جس کا انتظام معاشرے کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ کسی بھی ملک کا نظام تعلیم براہ راست اس ملک کے مسائل اور ضروریات پر منحصر ہوتا ہے۔ نظام تعلیم اور عمل تعلیم معاشرے کی ضروریات اور مسائل کو نظر انداز نہیں کرسکتے۔ عمل تعلیم کا معاشرے سے بڑا گہرا تعلق ہوتا ہے کیوں کہ ہر فرد کا تعلق معاشرے سے ہوتا ہے اور معاشرے میں رہنے والے ہر فرد کے لئے تعلیم کا ہونا بہت ضروری ہے مگر ہمارے معاشرے میں تو الٹی گنگا بہتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں علم کا تعلق پیسے سے جوڑا جاتا ہے حالانکہ علم کا تعلق پیسے سے نہیں بلکہ علم تو روشنی ہوتی ہے۔
ہمارے ملک کے سو فیصد امیر لوگوں میں سے نوے فیصد لوگ ایسے ہیں جو پڑھے لکھے نہیں جبکہ باقی دس فیصد امیر لوگ ہی شاید پڑھے لکھے ہونگے۔ علم کے بارے میں تو کہا گیا ہے کہ علم انسان کی غیبی آنکھ ہے جس سے انسان بہت کچھ سیکھ سکتا ہے۔ہمارے ملک میں تو تعلیم کا ستیاناس ہوچکا ہے۔ ہماری قوم جس طرح کی منتشر قوم تھی اب ایک ہجوم کی شکل اختیار کرگئی ہے۔ اس بکھری ہوئی قوم کو یکجا کیا جاسکتا تھا ایک مربوط اور خوب صورت تعلیمی نظام سے،مگر کیا ہے کہ یہاں تیرا قسم کے نظام تعلیم عائد ہوچکے ہیں اور جن کا نیٹ رزلٹ زیرو ہے۔
ہمارے ہاں اردو میڈیم، انگلش میڈیم اور مشنری اسکولوں کا اپنا نظام تعلیم ہے۔ یہاں پر علم حاصل کرنے والے اداروں کو تین قسموں میں تقسیم کردیا ہے۔ ایک سرکاری ادارے، پرائیویٹ ادارے اور مدرسے ہیں جہاں بچوں کو تعلیم دی جاتی ہے۔ میں آپکو بتاتا چلوں کہ ان پڑھ ہونا جرم نہیں ہے آپ کسی نہ کسی وجہ سے ان پڑھ رہ سکتے ہیں، اپنے ماحول کی وجہ سے یا کسی اور وجہ سے لیکن جہالت بہت بڑا جرم ہے اور جہالت کی بہترین مثال ہم ہیں۔ جہالت کی مثال یہ ہے کہ ایک ان پڑھ یا پڑھے لکھے شخص سے یہ کہا جائے کہ ہمیں اشارہ نہیں توڑنا چاہئے کیوں کہ اشارہ توڑنے کی وجہ سے تمھاری جان جاسکتی ہے۔
یا تمھارے اشارہ توڑنے کی وجہ سے کسی اور کی جان جاسکتی ہے، ٹریفک کے اصولوں کو مت توڑو تو آگے سے جواب ملتا ہے سارے ہی ٹریفک کے اصول توڑتے ہیں میں اکیلا تو ٹریفک کے اصول نہیں توڑتا۔ جاہل شخص کوکہا جاتا ہے کہ تم اپنے گھر کا کوڑا باہر گلی میں مت پھینکا کرو یا کسی مخصوص جگہ پر پھینکا کرو تو وہ جاہل شخص آگے سے جواب دیتا ہے کہ میرے کوڑا پھینکنے یا نا پھینکنے کی وجہ سے کونسا یہ شہر صاف ہوجائے گا اور سارے ہی تو کوڑا باہر پھینکتے ہیں اس لئے میں بھی باہر ہی پھینکوں گا چاہے جو مرضی ہوجائے۔
ایک جاہل شخص کو اگر کہا جائے کہ تم لائن میں کھڑے رہو تاکہ سب لوگوں کی وقت پر باری آئے تو اور لائن میں کھڑا رہنے سے سب کی وقت پر باری آسکتی ہے مگر وہ پھر بھی آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں جس کی وجہ سے سرکاری دفاتر میں یا رش والی جگہ پر عام لوگوں کو مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ان کا وقت ضائع ہوتا ہے۔ میں تو کہتا ہوں کہ ایک ان پڑھ شخص کے ساتھ گزارہ ہوسکتا ہے مگر ایک جاہل شخص کے ساتھ گزارہ بالکل بھی ممکن نہیں ہے اور پھر سونے پہ سہاگہ جن لوگوں کے پاس اچانک حرام کا پیسہ آجاتا ہے۔
تو وہ لوگ سب سے پہلے واسکٹ سلواتے ہیں اور معتبر بننے کی کوشش کرتے ہیں، پھر گھر بدلتے ہیں اور لوگوں میں بے وجہ پیسہ خرچ کرنا شروع کردیتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں تعلیم حاصل کرنے کا صرف ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ اچھی نوکری مل جائے اور جنھیں نوکری مل جاتی ہے تو وہ علمی دہشت گردی پھیلانا شروع کردیتے ہیں۔ پاکستان میں آج تک جتنی بھی معاشی دہشت گردی ہوئی ہے وہ پڑھے لکھے لوگوں نے ہی کی ہے۔ ہمارے ملک کا نظام تعلیم بہت منتشر ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ نائیجیریا کے بعد ہمارے ملک میں سب سے کم بچے اسکول جاتے ہیں۔
ڈھائی کروڑ بچے تعلیم سے محروم ہیں اور عالم یہ ہے کہ سرکاری اسکولوں میں بچوں کی تعداد بڑھنے کی بجائے کم ہورہی ہے۔ تعلیم اگر ہورہی ہے تو وہ پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں، مگرافسوس ہمارا معاشرہ انہیں مافیا، منافق، جیسے القابات سے نوازرہاہے، انہیں خراج تحسین پیش کرنے کی بجائے انہیں مختلف بہانوں سے تنگ کررہاہے، اس لاک ڈاؤن اورپریشانی کے عالم میں حکومت انہیں پیکچ دینے کے بجائے فیس لینے سے منع کررہاہے، حالانکہ حکومت کو پتہ بھی ہے کہ پرائیویٹ اسکولوں کے اساتذہ اور دیگر سٹاف کا گزارہ انہیں فیسوں پر ہے، یہی پرائیویٹ ادارے اور مدارس حکومت کا بوجھ کافی ہلکا کر چکے ہیں۔
تعلیم ہمارے ملک کا بنیادی مسئلہ ہے اوراس کی وجہ یہ ہے کہ ہم اپنے جی ڈی پی کا صرف دو فیصد تعلیم پر لگا رہے ہیں جس کی وجہ سے اس کا نیٹ رزلٹ زیرو ہے یعنی کہ ہم اپنی تعلیم کو بس تھوڑی سی اہمیت دے رہے ہیں۔ اگر ہم اپنے جی ڈی پی کا دس فیصد تعلیم پر لگائیں تو ہمارا یہ بنیادی مسئلہ تھوڑے ہی عرصے میں حل ہوجائے گا۔ ہمارے تعلیمی اداروں سے لیڈر پیداہوگاجوہمارے معاشرے کی راہنمائی کرینگے۔
ایک بات یاد رکھنے والی ہے کہ لیڈر وہ ہوتا ہے جو اپنی قوم کے مستقبل کے بارے میں سوچتا ہے لیڈروہ نہیں ہوتا جس کی نظر اگلے الیکشن پر ہو۔ اس لئے ہمارے حکمرانوں کو بھی ایک بات یاد رکھنی ہوگی کہ تعلیم کا مقصد صرف پڑھے لکھے بے روزگاروں کی کھیپ تیار کرنا نہ ہو بلکہ ملکی اور بین ا لاقوامی ضروریات کے مطابق پیشہ ورانہ مہارت کے حامل افراد تیار کرنا ہو۔