جس ملک میں انسان سازی کے بجائے میٹرو سازی اور اورینج سازی پہ اکتفا کیا جاتا ہو اس ملک میں حکومت 20 نکاتی ایجنڈا(ایس او پیز) پیش کر کے بری الزمہ ہو جائے کہ اس نے اپنا فرض پورا کر لیا اور ساتھ میں لوگوں سے عمل کرنے کی بھی توقع رکھے، بہرے کے کانوں میں سر گوشیاں کرنے کے مترادف ہے اور یہاں یہ قلعی کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ ریاست ہمیشہ مذہبی معاملات میں اپنا صائب فیصلہ پیش کر نے میں کیوں نا کام رہی ہے۔ایسے کٹھن معاملات میں قیادت کا اصل امتحان ہوتا ہے لیکن اگر قیادت خود ایسے فیصلے صادر فر مائے جس سے گنجلک سی صورت حال پیدا ہو تو عوام الناس سے کیا توقع کی جا سکتی ہے۔
جوسرے سے نظم و نسق جیسے اصولوں سے انجان ہے۔ پاکستان میں اس وقت صورتحال دن بدن بگڑتی جا رہی ہے چیئر مین NDMA کا کہنا ہے مئی میں کرونا کی نئی لہر بڑھنے کا خدشہ ہے لیکن بدقسمتی سے ہم اس چیز کو Light لے رہے۔ ایسے میں لاک ڈاؤن میں مزید نرمی کرنے کی باتیں بھی کی جا رہی ہیں نرمی تو اپنی جگہ حقیقت میں یہاں Effective لاک ڈاؤن ہوا ہی نہیں۔ جب عالم اسلام میں کرونا کے باعث ماہ صیام میں نماز تراویح کا اہتمام انسانی جانوں کی حفاظت کے پیش نظر موخر کیا جارہا ہے تو یہاں یہ فیصلہ سنانے میں کیا حرج تھا،ریاست ایسے معاملات میں کیوں مجبور ہو جاتی ہے بنیادی وجہ قیادت کا فقدان ہے۔
ہاں مذہبی علما کی طرف رجوع کرنا چاہیے اور انھیں اس بات پر قائل کرنا چاہیے کہ uniform decision کی ضرورت ہے اس وبا کے پیش نظر علما کو ریاستی فیصلے کو من و عن ما ننا چاہیے نہ کہ وہ ریاست کی رٹ کو چیلنج کریں اس میں تو کوئی دو آرا نہیں، انسانی جانوں کا معاملہ ہے۔ ابتدا میں ہم نے اس وبا سے نمٹنے کے لیے لاک ڈاؤن کی اصطلاح استعمال کی شاید بہت ہی کم آبادی نے اس اصطلاح کو استعمال کے بجائے عمل بھی کیا ہو، اس وقت سمارٹ لاک ڈاؤن کی اصطلاح استعمال کی جارہی ہے۔ حالت یہ ہے کہ آج صبح میرا کسی کام سے مارکیٹ جانا ہوا معمول سے زیادہ بھیڑ دیکھنے میں آئی اور لوگ بلا خوف وخطر ادھر ادھر آ جا رہے تھے۔
بڑے پیمانے پر خریدو فروخت کا سلسلہ جاری ہے خریدنے والوں اور فروخت کرنے والے والوں نے نہ کوئی ماسک پہنا ہوا تو نہ ہی دستانے۔ ایک دم ایسا لگا کہ ہم نے کرونا سے دو ہاتھ کر لیے ہیں اور اس وبا سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جان چھوٹ گئی ہو اور زندگی معمول پہ آگئی ہو۔یہ جانتے ہوئے بھی ہم ایک ایسے ان دیکھے دشمن سے نبرد آزما ہیں جو انسانی زندگیاں نگلنے کے درپے ہے ہم نے غیر سنجیدگی اور غیر ذمہ داری کا وتیرہ اپنایا ہوا ہے بنیادی وجہ انسان سازی کا فقدان ہے۔یہ بھی حقیقت ہے کسی بھی معاشرے میں انسان سازی کی ذمہ داری ریاست کی ہوتی ہے۔
لیکن جب ریاست نے انسان سازی کو اپنی ترجیحات میں سے نفی کر دیا ہو تو اب دن میں کتنے ہی بھاشن دیے جائیں، کیو نکر سمجھ آئیں گے۔ مذہبی معاملات میں ہماری ریاست اتنی کمزور پڑ جاتی ہے اسے مذہبی علما کرام کے فیصلے کی طرف دیکھنا پڑتا ہے مذہبی معاملات میں علما کی رائے ضروری ہے لیکن جب حالات کرونا سے نمٹنے جیسے ہوں تو فیصلہ اس نوعیت کا ہونا چاہیے جس سے انسانی جانوں کے نقصان کا خدشہ نہ ہو۔یہ بات علما کرام کو سمجھنی چاہیے اور تراویح کے معاملے پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔بہر حال ریاست کو کوئی بھی فیصلہ دینے سے پہلے اجتماعی طور پر غورو خوض کی ضرورت ہے۔
اور حکومت یہ کہتے نہیں تھکتی کہ جس نے ایس او پیز کی خلاف ورزی کی اس کے خلاف ایکشن لیا جا ئے گا کون اس ایس اوپیز پر عمل کر ے گا ایسا ممکن ہی نہیں اگر ایک مرتبہ اس چیز کا اہتمام ہو جائے پھر روکنا حکومت کے بس کی بات نہیں۔حکومت اور علما کرام سے التماس ہے کہ اس فیصلے پر نظر ثانی کریں کہیں دیر نہ ہو جائے۔جب انسان کی جان کعبہ کی حرمت سے بھی زیادہ عزیز ہے تو یہاں ایسی کنفیوژن پیدا کرنے سے اجتناب کیا جائے جب انسان سازی کا فقدان ہو تو قلعی کھل کر سامنے آجاتی ہے پھر یہ ایس او پیز اعلامیے کوئی معنی نہیں رکھتے بلکہ ایسے فیصلے دنیا کے لیے مضحکہ خیز بن جا تے ہیں۔