چین کے صوبے ووہان سے شروع ہونے والے نوول کرونا وائرس نے اب تک دنیا کے 210 ممالک میں 2،430،728 افراد کو متاثر کیا ہے۔جس سے روز بروز اضافہ بھی ہورہا ہے جبکہ اس وائرس کی وجہ سے تادم تحریر 166،271 افراد جان کی بازی ہارچکے ہیں۔جبکہ 113000 مریض صحتیاب ہوئے ہیں۔عالمی وباء کوویڈ 19 یا کرونا وائرس نے جہاں دنیا بھر میں تباہی مچا رکھی وہیں پاکستان بھی اسکے اثرات سے محفوظ نہیں رہا۔ پاکستان میں اس سے متاثرین کی تعداد 8414 بتاہی جاتی ہے جبکہ اسکی ذد میں سب سے زیادہ صوبہ سندھ اور پنجاب آئے ہیں۔ بلوچستان میں حالیہ وباء نے 376 افراد کو متاثر کیا ہے۔ 144 افراد صحت یاب ہوکر اپنے گھروں کو واپس لوٹ گئے ہیں۔
اس مہلک وائرس نے ایک طرف لاکھوں انسانی زندگیوں کا خاتمہ کیا ہے تو دوسری طرف عالمی معیشت، سماجی ڈھانچے، تعلیمی نظام سمیت دیگر معمولات زندگی کو بری طرح سے متاثر کیا ہے۔ ابتدائی ایام میں چین میں تباہی مچانے والے سارس خاندان سے تعلق رکھنے والے اس نئے وائرس نے وقت کے ساتھ ساتھ یورپ اور دوسرے براعظموں کا سفر دنوں اور بعض جگہوں پر گھنٹوں میں طے کیا۔ اس کی شدت اور پھیلاؤ کی وجہ سے عالمی ادارہ صحت کی جانب سے اسے پینڈیمک بیماری قرار دیا گیا۔ یورپ میں اٹلی اور سپین کرونا وائرس سے سب زیادہ متاثر ہوئے جہاں گزشتہ ہفتوں میں 24 گھنٹوں میں 1200 اموات ہوئے۔نوول کرونا وائرس کی علامات میں شدید بخار، کھانسی، باربار چھینکنا، اور پھیپھڑوں کے متاثر ہونے جیسے علامات شامل ہیں۔
اس بیماری کی ابھی تک کوئی ویکسین یا دوا ایجاد نہیں کی گئی تاہم ماہرین کا خیال ہے کہ اس سال کے وسط تک اس سلسلے میں پیشرفت کا امکان ہے۔ فی الوقت متاثرہ مریضوں کو بخار، کھانسی اور دیگر انفیکشنز کی دوائیوں کی مدد سے صحتیابی کی طرف لایا جارہا ہے۔ یہ وائرس متاثر شخص سے دوسرے افراد میں فوری طور پر منتقل ہوجاتا ہے۔ اس کے بچاؤ کا واحد حل احتیاط اور باربار ہاتھ دھونے کو قرار دیا جاتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کی وضع کردہ احتیاطی تدابیر میں سماجی فاصلے اور زیادہ سے زیادہ گھروں کے اندر رہنے کی ہدایات کی گئی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں لاک ڈاؤن کے ذریعے اس مہلک وباء سے نمٹا جارہا ہے۔ اسکی کامیابی کی مثال ہمسایہ ملک چین سے لی جاسکتی ہے جہاں مؤثر لاک ڈاؤن اور احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے بعد وہاں نہ صرف اس وائرس کو شکست دی گئی بلکہ اسے مزید پھیلنے سے روکا گیا۔تاہم تیسری دنیا کے ممالک میں بالعموم اور جنوبی ایشیائی ممالک میں غربت کی شرح جو پہلے ہی بہت زیادہ ہے وہاں طویل لاک ڈاؤن کی وجہ سے دیہاڑی دار مزدور طبقہ نان شبینہ کا محتاج ہوکر رہ گئی ہے۔ ان متاثرہ ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے۔مزدور طبقے کی دادرسی کیلیے وفاقی حکومت نے احساس کفالت پروگرام وضع کیا ہے۔
جسکی مدد سے مفلس نادار اور روازانہ مزدوری کرنے والے افراد کی مدد کی جارہی ہے۔ وفاقی حکومت نے بلوچستان کے لیے کیلئے 1,312,752,000 روپے فراہم کئے ہیں جس میں سے صوبائی حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق اب تک 109,336 مستحق خاندانوں میں یہ عطیات تقسیم کی جاچکی ہیں۔ جبکہ با قی امدادی پر سرگرمیاں جاری ہیں۔صوبائی دارالحکومت کوئٹہ کے جنوب میں 137 کلومیٹر کے فاصلے پر کویٹہ کراچی قومی شاہراہ پر واقع ضلع قلات میں بھی کرونا وائرس کے تدارک کیلیے ٹھوس اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔
دیگر اضلاع کی طرح یہاں بھی لاک ڈاؤن پر سختی سے عمل درآمد کیا جارہا ہے۔ صوبائی وزیر داخلہ میر ضیاء لانگو کی خصوصی ہدایات کی روشنی میں ڈپٹی کمشنر قلات شہک بلوچ اور ضلعی انتظامیہ نے وائرس کے ضلع میں پھیلنے سے روکنے کیلیے ٹھوس اقدامات اٹھائے ہیں۔ جن میں بازاروں میں مکمل لاک ڈاون، ڈبل سواری پر پابندی اور دو افراد سے زائد کے اجتماع پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ اسکے علاؤہ جمعہ کی باجماعت نماز کو بھی محدود کرلیا گیا ہے جس کیلیے دینی جماعتوں اور علماء و مشائخ ضلعی انتظامیہ کیساتھ بھرپور تعاون کررہی ہے۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق ضلع قلات میں کرونا کے ایک مشتبہ مریض کی نشاندہی کی گئی تھی جنہیں ٹیسٹ منفی آنے پر فارغ کیا گیا ہے۔
ضلع میں ابھی تک مکمل لاک ڈاؤن ہے۔ تاہم اشیاء خوردونوش کی دکانیں، پھلوں اور سبزیوں کی دکانیں، نان بائی بیکری، گوشت اور دیگر اشیاء ضروریہ کی دکانیں کھلی ہیں جو ضلعی انتظامیہ کی سرپرستی میں سماجی فاصلے کے مروجہ اصولوں کے مطابق لوگوں کو روزمرہ کے اشیاء کی فراہمی یقینی بنائے ہوئے ہیں۔خوش قسمتی سے ضلع قلات میں ابھی تک کرونا وائرس کا کوئی مثبت کیس سامنے نہیں آیا ہے۔ جبکہ محکمہ صحت کے حکام نے کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کیلیے ضلعی ہیڈکوارٹر ہسپتال قلات اور مختلف جگہوں پر قرنطینہ مراکز قائم کیے ہیں۔ جن میں کرونا کے مشتبہ مریضوں کے ٹیسٹ اور خون کے نمونے حاصل کیے جائیں گے۔
علاؤہ ازیں اپریل کے مہینے سے صوبہ سندھ اور ضلع کچھی سے آنیوالے خانہ بدوشوں کی مکمل سکریننگ کی جارہی ہے تاکہ عوام کو کرونا کے ممکنہ حملوں سے بچایا جاسکے۔ اس سلسلے میں تحصیل منگچر اور قلات کے تمام داخلی راستوں پر سخت چیکنگ مکمل سکریننگ اور تحقیقات کے بعد خانہ بدوشوں کو ضلع میں داخل ہونے کی اجازت دی جائے گی۔ قرنطینہ سینٹر منگچر میں خانہ بدوشوں کی چیک اپ جاری ہے جن میں سے یہاں آمدہ اطلاعات کے مطابق اب تک 250 سو سے زائد افراد کا چیک اپ کیا گیا ہے جبکہ دیگر افراد کی سکریننگ جاری ہے۔
بلوچستان کے غریب اور نادار افراد کو راشن کی فراہمی کے لئے حکومت بلوچستان نے صوبے کے 33 اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز کو 765 ملین روپے ضلع قلات کے لیے ایک کروڑ 50 لاکھ روپے جاری کردیے گئے ہیں۔ ضلعی انتظامیہ اور ڈپٹی کمشنر قلات شہک بلوچ کی سربراہی میں امدادی رقوم کی تقسیم کا عمل جاری ہے۔ اس کے علاؤہ دیہاڑی دار طبقے کی دادرسی کیلئے ضلع کے دوردراز علاقوں میں بھی اشیاء خوردونوش تقسیم کی جارہی ہے۔ اس سلسلے میں سول سوسائٹی کے نمائندے بھی ضلعی انتظامیہ کے ساتھ ملکر غریب اور مستحق خاندانوں میں کھانے پینے کی اشیاء اور دیگر سامان کی تقسیم میں پیش پیش ہیں۔
دوسری جانب صوبائی حکومت کی طرف سے مرحلہ وار لاک ڈاؤن میں نرمی کے نتیجے میں مختلف شعبہ جات سے منسلک افراد کو کاروبار کھولنے کی اجازت دی گئی ہے جو سماجی فاصلے کے اصولوں کے مطابق اپنی دکانیں کھول سکیں گے ان میں پلمبرحجام الیکٹریشن مکینک زرعی مشنری مکینک سیمنٹ پلانٹ کھاد انڈسٹری اینٹوں کے بھٹے ڈرائی کلینر بلڈنگ میٹیریل کی دکانیں، سینٹری شاپ، فیکٹریز ٹائلز کی دکانیں درزی کی دکانیں، کریانہ، دودھ دھی کی دکانیں صبح 6 سے رات 9 بجے تک کھلی رہیں گی۔اسکے علاؤہ ویٹرنری اسپتال ای کامرس سافٹ وئیر ڈویلپمنٹ فلاحی تنظیموں کے دفاتر بک شاپس فوٹوکاپی کی دکانیں کارپینٹرز رنگ ساز مستری مزدور میڈیکل سٹورز 24 گھنٹے جبکہ الیکٹرک سٹور شٹرنگ سٹور بیکریز بنک ہاردویئر شاپ لیبارٹریز نجی ہاسپیٹلز میڈیا انڈسٹری وغیرہ صبح سے 9 بجے سے شام 5 بجے تک کھلی رہیں گی۔
مندرجہ بالا شعبوں سے منسلک افراد کیلئے ماسک ضروری قرار دیا گیا ہے جبکہ دکان مالکان کو ہینڈ سینٹائزر لازمی ساتھ رکھنے کی ہدایت کی گئی ہے۔عوامی حلقوں کی جانب سے جہاں صوبائی حکومت اور ضلعی انتظامیہ کی کاوشوں کو سراہا گیا ہے یہ مطالبہ بھی زور پکڑتا جارہا ہے کہ ماہ صیام کے آمد سے قبل ہی ضلع کے مزدور اور پسے ہوئے افراد کو خوراک اور دیگر کھانے پینے کی اشیاء کی فراہمی فوری طور پر یقینی بنائی جائے۔
اس سلسلے میں خصوصا شہر میں روزانہ کی بنیادوں پر کام کرنے والے مزدور، گدھا گاڑی مالکان، چنگ چی رکشہ چلانے والے مزدور، ہوٹلوں پر کام کرنے والے افراد سمیت مختلف دکانوں پر کاریگر و مزدور طبقے کی جانب سے حکومت سے بارہا اپیل کی جارہی ہے کہ حکومت لاک ڈاؤن میں انہیں کھانے پینے کی اشیاء کی فراہمی یقینی بنائے۔امید کی جانی چاہیئے کہ صوبائی حکومت بالخصوص صوبائی وزیر داخلہ میر ضیاء لانگو ضلع کے غریب اور مستحق افراد کی دادرسی کیلئے اپنا بھرپور کردار ادا کریں گے۔