|

وقتِ اشاعت :   April 28 – 2020

ساری دنیا کورونا وائرس کی لپیٹ میں ہے۔ اس سے تمام افراد افسردگی میں مبتلا ہوچکے ہیں۔ آج تک اس وبا کی وجہ سے 30 لاکھ افراد متاثر ہوئے ہیں جس میں دو لاکھ سات ہزار سے زائد افراد لقمہ اجل بن گئے ہیں۔ کورونا بہت تیزی سے پھیل رہا ہے اور معلوم نہیں کب تک یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ماہرین کہتے ہیں یہ بہت چھوٹا وائرس ہے عام خورد بین سے نظر نہیں آتا اس کے لئے خصوصی الیکٹرانک مائیکرو اسکوپ ہی استعمال کیاجاتاہے۔ اس کورونا وائرس کے بارے میں اخبارات، رسائل،ٹیلی ویژن، الیکٹرانک میڈیا، پرنٹ میڈیا اور سوشل میڈیا خبریں اور شعوروآگہی عوام تک پہنچا رہی ہیں۔

مختلف تجزیہ نگار مختلف قسم کے تجزیے پیش کررہے ہیں۔کوئی کہتا ہے کہ یہ وائرس انسان ہی نے بنایا ہے کوئی کہتاہے کہ یہ وائرس حرام جانور یا پرندے کی گوشت کھانے سے انسان کو لگ چکا ہے۔ کوئی کہتاہے کہ یہ امریکہ نے تیار کیاہے۔ کوئی اسرئیل کو موردالزم ٹھہراتا ہے لیکن حتمی بات ابھی تک نہیں آئی ہے۔ تمام ذرائع ابلاغ نے عوام کو سخت پریشانی میں مبتلا کرچکا ہے۔ جھوٹ ومن گھڑت خبریں تواتر سے نشر ہورہی ہیں جس میں خوف وہراس پیدا کرنے کا عنصر نمایاں ہے۔ ایک طرف ٹیلی ویژن چینلز کی کثرت،دوسری طرف سوشل میڈیا پر فضول قسم کی خبروں نے انسان کو مصائب سے دوچار کیا ہے۔

سوشل میڈیا ہر خاص وعام کے ہاتھوں میں ہے جس کی وجہ سے ہر شخص صحافی،اینکر، اور تجزیہ نگار بن گیا ہے جس کے ذہن میں جو بات آتی ہے وہ آسانی کے ساتھ سوشل میڈیا کے ذریعے سے دوسروں تک پہنچاتے ہیں۔ اسی طرح مختلف ٹیلی ویژن چینلزاپنی نشریات پیش کر رہے ہیں حکومت نے سب کو آزاد چھوڑاہے ان پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ مستند ڈاکٹروں کے علاوہ خود ساختہ نیم حکیم سوشل میڈیا پر نمودار ہوکر جڑی بوٹیوں کی ادویات کی تشہیر کر رہے ہیں۔ حتیٰ ہر شخص نے اپنا دکان کھول کر سستی شہرت حاصل کر رہے ہیں۔ابتداء میں بعض برائے نام قسم کے مولویوں نے بھی کرونا وائرس کے خلاف باتیں کی تھیں۔

ایک محاورہ ہے نیم ملا خطرہ ایمان اور نیم حکیم خطرہ جان۔حالانکہ صحیح کوالیفائیڈ علماء کی رائے یہ نہیں وہ حکومت کے ساتھ بہت تعاون کر رہے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کے ایک قانون اور ضابطہ بنائے کہ کوئی بھی حکومت کے علاوہ اپنی طرف سے کورونا وائرس کے بارے میں کوئی احتیاطی تدابیر اور علاج معالجہ پیش نہیں کرے گا۔ اور یہ قانون تمام ذرائع ابلاغ کے لیے بھی مقرر کیا جائے۔ان غلط پروپیگنڈوں کی وجہ سے بہت سے لوگ ذہنی امراض کے شکار ہوگئے ہیں جو کورونا وائرس لگنے سے پہلے ہی اپنی ہمت ہار چکے ہیں۔

حیران کن بات یہ ہے کہ ماہرین طب جو احتیاطی تدابیر تجویز کررہے ہیں وہ تدابیر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سو سال پہلے بیان کیے ہیں حضورؐ نے فرمایا ”جہاں وبا آجائے تو وہاں جانا ٹھیک نہیں اور وبا کی جگہ سے بھاگنا بھی ٹھیک نہیں“۔ اسلام نے صفائی کے متعلق بہت تاکید فرمائی ہے جیسے غسل کرنا،پانچ وقت نمازوں کے لئے وضو بنانا، حلال جانور کا گوشت کھانا،یہ سب نبی کی تعلیمات ہیں۔اگر اس حدیث مبارکہ پر عمل کرتے تو یہ وبا نہ پھیلتی،ان پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے ہم بہت مصائب کے شکار ہوگئے ہیں۔یہ کوروناوائرس چائنہ سے ساری دنیا کو پھیل گیا۔

اگر چائنہ نے اپنے روابط ساری دنیا کے ساتھ اس وائرس ختم ہونے تک منقطع کرتا تو یہ مصیبت تمام دنیا پر نازل نہ ہوتی۔ دنیا کے مختلف سائنس دان مختلف قسم کی کوششیں کررہے ہیں کہ جلد سے جلد اس کا کوئی علاج دریافت ہو جائے لیکن ابھی تک اس میں کوئی واضح پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ دوسری طرف کورونا کی وجہ سے بہت سے جابر ممالک کا تکبروغرور خاک میں مل گئے ہیں۔ اب وہ اپنے آپ کو بچانے میں مشغول ہوگئے ہیں یعنی جہاں پر مظلوم انسانوں کے خلاف جنگ جاری تھیں اس میں تعطل آگیا ہے۔

اس وائرس کی وجہ سے تمام دنیاکی معیشت تباہی کی طرف رواں دواں ہے خاص کر غریب ممالک میں عوام اس سے بہت متاثر ہوگئے ہیں اور مزید متاثر ہونے کا خطرہ موجود ہے،اللہ نہ کرے کہ اس کی وجہ سے دنیا میں خوراک کی قلت پیدا ہوجائے چاہے وہ قدرتی ہو یا مصنوعی۔ ان حالات میں ہمیں اپنے غریب پڑوسیوں، رشتہ داروں اور اپنے علاقے میں دیگر مفلوک الحال لوگوں کی دل کھول کر مدد کرنی چائیے۔ اس کے علاوہ ہمیں انفرادی اور اجتماعی توبہ کا بھی خوب اہتمام کرنا چاہیے کہ قدیم اور جدید ماہرین کا اتفاق ہے کہ ذکر اللہ اور توبہ و استغفار سے قلب کو قوت اور قوتِ مدافعت حاصل ہوتی ہے۔ یہی وہ قوت ہے جو لاعلاج بیماریوں کے خلاف قوتِ مدافعت پیدا کرتی ہے۔