|

وقتِ اشاعت :   April 29 – 2020

جب قلم اٹھتا ہوں تو میرے سامنے کئی موضوعات ہوتے ہیں کورونا وائرس, لاک ڈاؤن,کرفیو,اسمارٹ لاک ڈاؤن,سندھ اور وفاق کی سیاسی چپقلش, عالمی مارکیٹ میں خام تیل کی گرتی ہوئی قیمتیں,امریکہ فرانس، اٹلی، جرمنی،ایران میں کورونا وائرس سے ہونے والی اموات اور وائرس متاثرین جو اپنی زندگی کی بقا کی جنگ لڑرہے ہیں۔

ترقی یافتہ ممالک میں موت کا رقص اور ترقی پذیر ممالک میں معاشی نظام و قرضوں کا بوجھ، مملکت خداداد کی آئی ایم ایف ورلڈ بینک کی قرضوں کی ادائیگی، آٹا،چینی اسکینڈلز، آئی پی پیز میں کھربوں روپے منافع کمانے اور صارفین کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالنے والے مافیا دیہاڑی دار مزدور و سفید پوش طبقے کی مالی پریشانی،تاجر برادری کی آہ فغاں،کاروبار کھلنے کی اجازت دینے پر اصرار، مذہبی طبقے کی ضد کہ مساجد میں با جماعت نماز اور رمضان المبارک کے مہینے میں با جماعت نماز تراویح کی ادائیگی کے لیے 20 نقاطی ایجنڈا،اس سے پیدا ہونے والی صورتحال، ڈاکٹر و پیرامیڈیکل اسٹاف کی پریس کانفرنس اور لاک ڈاؤن میں سختی لانے کی دہائی۔

ڈبلیو ایچ او کی وارننگ کہ آنے والے دنوں میں کورونا وائرس کے لئے نقطہ عروج ثابت ہونگے۔ایران امریکہ کی سرد جنگ،چائینہ اور امریکہ کے ایک دوسرے پر کورونا وائرس کے موجد اور امریکہ کی چائینہ کو کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا ذمہ دار ٹھہرانا اور سنگین نتائج کی دھمکیاں جیسے بہت سارے موضوعات پر لکھنے کو دل کرتا ہے ان موضوعات پر نامور کالم نگار تجزیہ کار دانشور اس بحر ظلمات میں اپنے اپنے گھوڑے خوب دوڑا رہے ہیں ملکی و بین الاقوامی اور صوبائی سطح کے صحافی روشن فکر جمہوریت پسند قلم کی حرمت و تکریم کی لاج رکھنے والے صحافی اہل علم و دانش کے پیرو کار قلم کے نوک سے ماضی حال اور مستقبل کو کریدنے میں مگن ہیں۔

لیکن ایک اور افسوس ناک پہلو جس نے آج مجھے قلم اٹھا کر لکھنے پر مجبور کر دیا ہے وہ ہے نومولد صحافی، جب میں اپنے اردگرد گرد نظر ڈالتا ہوں تو مجھے صحافت میں ایک خمار ایک نشہ ایک ایسی چاشنی یا مٹھاس محسوس ہوتی ہے کہ میں دم بخود رہ جاتا ہوں۔ ہر ایک صحافی بننے کیلئے بیتاب و جاں بلب ہے اس وقت ڈسٹرکٹ لسبیلہ خصوصاً حب میں نومولد صحافیوں کا ایک ایسا سیلاب امڈ آیا ہے کہ اللہ کی پناہ، صحافت ایک مقدس پیشہ ہوتا ہے مقننہ، انتظامیہ، عدلیہ کے بعد ریاست کا چوتھا بڑا ستون سمجھا جاتا ہے یہ معاشرے کی تیسری آنکھ ہے اصلاح معاشرہ سماجی برائیوں کی نشاندہی کیلئے صحافت کے پیشے کو کلیدی کردار حاصل ہے۔

اس پیشے سے وابستہ لوگ اعلیٰ تعلیم یافتہ پیشہ ورانہ صلاحیتوں سے مزین ہوتے ہیں اعلیٰ صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ سیاسیات، معاشیات،عمرانیات،جغرافیہ،ادب سمیت دیگر علوم سے لیس ہوتے ہیں۔مشرقی روایات،اعلیٰ اقدار و خصوصیات میں یکتا و یگانہ ہوتے ہیں جب لکھنے بیٹھ جاتے ہیں تو قلم میں زبان آجاتی ہے اور جب بولنا شروع کرتے ہیں تو ان کے منہ سے پھول جھڑتے ہیں ان کا مطالعہ وسیع ہوتا ہے خصوصاً علم تاریخ، ادب شعر و شاعری سے گہرا شغف رکھتے ہیں ایک کامیاب صحافی کیلئے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے پیشے سے مخلص ہو ان کے پاس معلومات ایک بہت بڑا ذخیرہ موجود ہو تاکہ لکھتے اور بولتے ہوئے۔

اپنے معلومات دوسرے تک پہنچا سکیں ملکی سیاسی تاریخ سیاسی نشیب و فراز ملکی و بین الاقوامی حالات حاضرہ تاریخ و تہذیب قوموں کی ثقافت جغرافیہ سے بخوبی واقفیت رکھنا ملک کی آئیں مملکت کے سربراہ کے آئینی اختیارات، سربراہ حکومت اور ان کے اختیارات ایوان بالا و ایوان زیریں کے کردار جمہوریت، آمریت صدراتی نظام حکومت پارلیمانی جمہوری نظام حکومت اشرافیہ طرز حکومت بادشاہت قومی حکومت سمیت تمام طرزِ ہائے حکومتوں کی خوبیوں و خامیوں سے متعلق وسیع علم کا بیش بہاذخیرہ موجود ہو لیکن کیا کیا جائے کہ یہاں ایک ایسی ریت و روایت چل پڑی ہے کہ جو ایک سطر بھی دوسروں سے لکھواتے ہیں۔

وہ بھی خود کو صحافت کے کار زار کا شہسوار سمجھ بیٹھتے ہیں،نہ علم ہے نہ تعلیم نہ معلومات اور نہ ہی تربیت،بس صحافت کا بھوت ان کے سر پر ایسے سوار ہے کہ اترتا ہی نہیں۔ ایسے ایسے صحافی ہیں جو مڈل پاس بھی نہیں جو مختلف اخبارات اور نیوز چینل میں بطور رپورٹر کام کررہے ہیں یا ان اخبارات و نیوز چینل کے صحافت کارڈ رکھتے ہیں یہ عمل نہ صرف تشویش ناک ہے بلکہ حقیقی تعلیم یافتہ منجھے ہوئے صحافیوں کی حق تلفی بھی ہے جنھوں نے اپنی پوری زندگی انہی تپتے ہوئے صحراؤں کی خاک چھان کر یہ مقام حاصل کیا ہے جنہوں نے مشقتیں جھیلی ہیں ڈنڈے کھائے سختیاں برداشت کی ہیں۔

جھیلیں کاٹی ہیں صعوبتوں اور کال کوٹھڑیوں کی اذیتیں خندہ پیشانی سے قبول کی ہیں مگر یہاں تو گنگا ہی الٹا بہہ رہا ہے جس نے تعلیم کے حصول سے راہ فرار اختیار کر کے علم کو غیر ضروری شے سمجھاجو کہ بذات خود ایک مجرمانہ فعل ہے بلا ایک غیر تعلیم یافتہ غیر تربیت یافتہ شخص صحافت کے معیار پر کیونکر پورا اتر سکتا ہے معذرت کے ساتھ اس قسم کے لوگ صحافی نہیں ہوا کرتے یہ ٹڈی دل ہیں جس طرح ٹڈی دل فصلوں پر حملہ آور ہو کر کسان کی پوری محنت پر پانی پھیرتے ہیں فصل کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیتے ہیں اسی طرح یہ نام نہاد لوگ صحافت کو آڑ بنا کر کیا کیا گل کھلائیں گے بلکہ کیا گل کھلا رہے ہیں۔

مجھ سمیت سب کو معلوم ہے۔ اس خمار میں مبتلا عناصر بہت خطرناک وائرس ہوتے ہیں بعد میں ایک مافیا کا روپ دھار کر حقیقی محنتی جفا کش صحافیوں کو تگنی کا ناچ نچانے پر مجبور کرتے ہیں۔ اس رجحان کی حتی الوسع حوصلہ شکنی اور تدارک صحافی برادری کا فرض اولین ہونا چاہیے لسبیلہ خصوصاً حب میں نومولد غیر تربیت مڈل میٹرک پاس جو بیروزگاری سے تنگ آکر صحافت کے پیشے سے خود کو منسلک کرنے کی کوشش کررہے ہیں اس کی روک تھام از بس ضروری ہے ورنہ یہ مافیا کی شکل اختیار کرکے پریس کلبوں کی ممبر شپ حاصل کرنے کے بعد اپنا سکہ بٹھانے میں اگر کامیاب ہوگئے تو یہ کورونا وائرس کی طرح لا علاج ہونگے۔

اور حقیقی محنتی جفا کش صحافی جنہوں نے ایک طویل جد وجہد کے بعد یہ مقام حاصل کیا ہے وہ بالکل قرنطینہ میں چلے جائیں گے انہیں لسبیلہ کی جغرافیہ آبادی محل وقوع کا نہیں معلوم اور نہ ہی انھیں یہ معلوم ہے لسبیلہ کے کتنے تحصیل ہیں کون کونسا تحصیل کس حلقے میں ہے ان تحصیلوں کی آبادی کتنی ہے کون کونسے معدنیات لسبیلہ ڈسٹرکٹ میں نکلتے ہیں ان کی کھپت کتنی ہے بین الاقوامی منڈیوں میں ان کی کتنی مانگ ہے۔

حاصل بحث یہ ہے کہ لسبیلہ پریس کلب اور حب پریس کلب کے ذمہ دار عہدے داروں سے گزارش ہے کہ مشتری ہوشیار باش ایسے غیر تربیت و غیر تعلیم یافتہ صحافیوں کو پریس کلب کاممبر بنانے سے گریز کریں،یہ صحافی نہیں ہیں بلکہ صحافت کے نام پر دھبے ہیں اپنے اور پیشے کی لاج رکھتے ہوئے ان ٹڈی دل نما صحافیوں سے اپنا پیشہ اجھاڑنے اور صحافتی وقار کو ملحوظ خاطر رکھیں نہیں تو بہت پچھتاؤ گے۔