سیاسی و مذoبی شعبدہ بازوں نے ہمیشہ نیشنلزم اور مذہب کے نام پر عوام کا استحصال کیا۔ ان قوتوں نے ہمیشہ عوام کے مذہبی و قومی جذبات سے کھیل کر عوامی و اجتماعی مفادات پر ذاتی اور گروہی مفادات کو ترجیح دی۔عمومی طور پر پاکستان اور بلخصوص بلوچستان کی سیاست میں ایسے کردار اپنی سیاسی منجن بیچنے کے لیے مختلف نسخہ، فتویٰ یا پھر نکات کی مارکیٹنگ کرتے رہتے ہیں۔ سیاسی کاروبار کی اس منڈی میں یہ لوگ اپنے سیاسی اکابرین کی قربانیوں، سیاسی و جماعتی اصولوں اور پارٹی سے وابستہ ایماندار کارکنوں کے خلوص کو بیچ کر خوب مال و زر کماتے ہیں۔
سیاست کے کاروبار میں شامل یہ سیاسی جماعتیں اپنے اصل سیاسی و تنظیمی ساخت اور قومی مقاصد سے دستبردار ہوکر نیم سیاسی و کاروباری جماعت بن جاتے ہیں۔ یہ جماعتیں اپوزیشن کے دور میں سطحی انقلابی نعروں، قومیتوں کے خلاف نفرت اور حقیقی سیاسی و جمہوری جماعتوں کے خلاف گھناؤنی سازشیں کرتی رہتی ہیں اور جب اقتدار میں آتی ہیں تو نکاتوں کے پردے میں رہ کر سادہ لوح عوام کو بیوقوف بنانے کی کوشش کرتی ہیں۔ لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ایک وقت میں ایک شخص کو بیوقوف بنایا جاسکتا ہے یا بہت سے لوگوں کو ایک وقت بیوقوف بنایا جاسکتا ہے لیکن تمام لوگوں کو تمام عرصے کے لئے بیوقوف بنانا ناممکن ہے۔
نظریات و فکری طور پر کمزور جڑیں رکھنے والی ان شخصیت پرست جماعتوں کی واضح پالیسی یا حکمت عملی نہیں ہوتی بلکہ یہ قوتوں کے ایجنڈے کو آگے بڑھاتے رہتے ہیں۔ اسی طرح دوسری سیاسی جماعتوں کے ساتھ انکا رشتہ سیاسی اصولوں کی بجائے پرسنل یا گروہی مفادات کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔ ماضی قریب میں اسکی ایک مثال سردار اختر جان مینگل کی آصف علی زرداری سے ملکر سردار ثناء اللہ کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کرنا اور قدوس بزنجو کو وزیر اعلیٰ بناناہے اور پھر بعد میں جب موقع ملا تو گروہی مفادات کے حصول کیلیے آصف علی زرداری کی جمہوری اتحاد کو چھوڑ کر پی ٹی آئی کی غیر فطری و غیر جمہوری سلیکٹڈ اتحاد کا حصہ بنے۔
پی ٹی آئی اتحاد میں شامل 6 نکاتی جماعت آدھا تیتر آدھا بٹیر کے مصداق ہے۔کہنے کو جمہوری اور قوم پرست پارٹی کا دعویدارہے مگر دوردور سے دونوں خواص سے خالی ہے۔ چونکہ انکے تمام فیصلے سازی کا مرکزومنبع فرد واحدہے اس لئے اختلاف کرنے کی کوئی گنجائش نہیں۔ اگر غلطی سے کسی نے اختلاف رائے رکھنے کی کوشش یا اختلافی خواہش کا اظہار کیا تو جماعت میں اس کے لئے کوئی جگہ نہیں ہوگی۔اس وقت بلوچستان میں واحد جمہوری سیاسی و فکری جماعت نیشنل پارٹی ہے نیشنل پارٹی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہ تمام طبقوں کی نمائندہ پارٹی ہے۔
جس نے بلوچستان کی حق نمائندگی بہترین انداز میں ادا کی ہے۔ نیشنل پارٹی کو ملک بھر میں دوسری بڑی جمہوری جماعت کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ بطور وزیر اعلیٰ نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے بلوچستان کے مفلوج اداروں میں نئی روح پھونک دی اور صوبے میں امن و امان کی مخدوش صورتحال پر قابو پاکر حالات بہتر بنانے میں زبردست تاریخی کردار ادا کیا۔ جبکہ انٹرنیشنل ٹرانسپیرنسی نے نیشنل پارٹی کی گڈگورننس کو بھی سراہا تھا۔نیشنل پارٹی نے ریکارڈ ترقیاتی کاموں کا جال بچھایا جس کی بلوچستان کی سیاسی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔
یونیورسٹی،لا کالج، میڈیکل کالج،پولی ٹیکنیک کالج، ہائی کورٹ کو سرکٹ بنچوں نیشنل پارٹی کی کارکردگی کے ایسے ثبوت ہیں جس سے بدترین سیاسی مخالف بھی انکار نہیں کرسکتے۔اس وقت نیشنل پارٹی میں نوجوانوں کی بڑی کیپ موجود ہے۔جو بلوچ نیشنلزم کی نرسری سے نکل کر پارٹی کو منظم کر رہے ہیں۔بی ایس او کے کیڈر نیشنل پارٹی سے وابستہ ہیں۔سماجی کارکنان اور عورتوں کی بڑی تعداد پارٹی سیاست میں سرگرم ہیں۔ نیشنل پارٹی کی کمان وژنری اور وسیع النظر قائد ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے ہاتھوں میں ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ بحیثیت بلوچ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی قومی و سیاسی اصولوں کی پاسداری کریں، اپنے سیاسی اکابرین کے نقش قدم پر چل کر جدوجہد کریں اور ایک قومی پارٹی کی تشکیل میں ایمانداری سے کردار ادا کریں۔