گزشتہ دنوں وزہرعظم کی زیر صدارت احساس ٹیلی تھون پروگرام میں تبلیغی جماعت کے نامور عالم دین مولانا طارق جمیل نے گفتگو کرتے ہوئے جناب عمران خان صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔کہ آپ سچے ہیں اور باقی ملک کے 22 کروڑ عوام میں جھوٹ کا ناسور پھیل چکاہے۔سب جھوٹ بولتے ہیں۔ مولانا کا کہنا تھا کہ کرونا وائرس کی وبا پاکستانی قوم پر جھوٹ اور بے پردگی کی وجہ سے نازل ہوئی ہے۔ مولانا نے ایک ٹی وی اینکر کے مالک کا واقع بیان کرتے ہوئے کہاکہ چینل کے مالک نے مولانا سے کہا کے مجھے کچھ نصیحت کیجیے۔
مولانا نے ان کو نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ اپنے چینل سے جھوٹ ختم کردو۔چینل کے مالک نے کہا کہ چینل ختم ہوسکتا ہے مگر جھوٹ نہیں۔مولانا نے پاکستانی میڈیا اور عالمی میڈیا پر الزام لگایا کہ وہ جھوٹی خبریں پھلاتے ہیں۔ پروگرام میں بڑے ٹی وی چینل کے اینکرز بھی موجود تھے۔پروگرام کے اختتام کے بعد میڈیا پر ٹی وی اینکرز کی طرف سے شدید ردعمل آیا اور انہوں نے مولانا سے اصرار کیا کہ وہ ٹی وی چینل کا نام واضح کردیں جس نے کہا کہ جھوٹ کے بغیر چینل نہیں چلتا۔ایکسپریس چینل کے پروگرام زیرو پوائنٹ میں جاوید چوہدری سے بات کرتے ہوئے حامد میر کی موجودگی میں اپنے بیان پر معافی مانگی۔
جاوید چوہدری نے کہا کہ پاکستان میں 100 صحافیوں نے سچ کے لیے جام شہادت نوش کیا ہے۔مولانا کے معافی کے باوجود حامد میر نے اپنے کالم ”علماء دین اور حکمران“ میں مولانا کا نام لیے بغیر تنقید کی۔انہوں نے اپنے کالم میں امام ابو حنیفہ رح کے واقع کا ذکر کیا کہ وقت کے حکمران ابو جعفر عبداللہ بن محمد المنصور نے امام کو چیف جسٹس کے عہدہ کی پیشکش کی۔ لیکن امام نے کہا کہ میں اس عہدہ کا اہل نہیں ہوں۔ تو حکمران وقت نے امام کو کہا کہ تم جھوٹ بول رہے ہو۔ امام صاحب نے کہا کہ اگر میں جھوٹ بول رہا ہوں تو میں اس عہدہ کا اہل نہیں ہوں۔جسکی پاداش میں امام صاحب کو قید کردیا گیا اور ان کا جنازہ جیل ہی سے اٹھا۔
مولانا طارق جمیل کے فالورز کا کہنا ہے کہ ہمارے معاشرے میں جھوٹ کا ناسور پھیل چکا ہے۔ ان کے چاہنے والے اس بات پر غصہ ہیں کہ مولانا کا جھوٹ پر بیان حقیقت پر مبنی ہے اس کو معافی پر مجبور کیوں کیا گیا۔ دوسری طرف سوشل میذیا پر مولانا کے چانے والے اور میڈیا کے فالورز کے درمیان جو کمنٹس اور ویڈیو اپلوڈ ہورہی ہیں۔دلائل کے بغیر گالم گلوچ تگ سلسلہ پہنچ چکا ہے۔ یہ رویہ ہمارے معاشرے میں عدم برداشت کی نشاندہی کرتاہے۔ حالانکہ مولانا اور حامد میر کی بات اپنی جگہ پر درست ہے جھوٹ بولنا عام ہو چکاہے۔اور علماء کرام کو بادشاہوں کے دربار سے دور رہنا چاہیے۔
حکمران وقت کو سچا کہنا اور پوری 22 کروڑ عوام کو جھوٹا قرار دینا مناسب نہیں ہے۔ کسی بھی معاشرے کی عمارت اخلاق،برداشت،رواداری،اور محبت کے ستونوں پر کھڑی ہوتی ہے۔ جب یہ خصوصیات سماج سے رخصت ہوجائیں تو وہ تباہی کے جانب گامزن ہوجاتی ہے۔اس عدم برداشت کو ختم کرنے کیلے علماء کرام، اساتذہ کرام،ٹی وی اینکرز اور معاشرے کے ہر فرد کو عملی اقدامات کے ذریعے روکنا ہوگا۔ اختلاف رائے کو اعلیٰ اخلاق کے دائرے میں رہتے ہوئے بیان کیا جائے۔ تاکہ ہمارا معاشرہ نفسیاتی طور پر صحت مند رہے۔