دنیا میں جتنے منصوبے بنائے جاتے ہیں وہ ہر سال اربوں روپے کے فائدے عوام کو پہنچاتے ہیں اسی طرح کے کئی منصوبے بلوچستان میں بنائے گئے جو آج تک تکمیل تک نہ پہنچ سکے۔ اسی طرح کا ایک منصوبہ آر,بی,او,ڈی,تھری کے نام سے 2004میں شروع ہوا جو مکمل تو ہوا مگر کچھ واپڈا کے افسران سندھ حکومت اور ایریگیشن کے نا اہل لوگوں کی وجہ سے آج تک اس منصوبے کو اپنی اصل جگہ تک نہ پہنچنے دیاگیا.آر بی او ڈی تھری رائٹ بینک ماسٹر پلان کے تحت سندھ اور بلوچستان کے علاقوں کے سیم کے پانی کے اخراج کیلئے منظور کیا گیا۔2004میں ای سی این ای سی کے منظوری کے بعداس کا تخمینہ 4486ملین روپے لگایا گیا جو ٹھیکیداروں کو پسندنہ آیاجو بعدمیں 6535.97ملین تک پہنچادیاگیا. اس منصوبے کو حیردین کا نام بھی دیا گیا حیر دین کیرئیر ڈرین کی توسیع چوکھی سے میرو خان زیرو پوائنٹ تک شمال کی طرف39کلو میٹردور ہیں جبکہ آر بی او ڈی کی توسیع میرو خان زیرو پوائنٹ سے حیر دین پمپنگ اسٹیشن تک کا فاصلہ 80کلو میٹر ہے جبکہ آبپاشی کیلئے چینل کی تعمیر جس کے 400کیوسک کے ذریعے 40000ہزار ایکڑ زمین سیراب کیا جائے گا. جبکہ ہریرو اور اوستہ محمد ڈرینیج کی تعمیر جو کھیر تھر کینال کے کمانڈ ایریا سے 400کیوسک کا اخراج کر سکے گا واپڈا کے اصل ڈیزائن کے مطابق آر ڈی 116کے مقام پر 1600کیوسک کے اخراج کی استعداد رکھنے والے سائفن تعمیر کئے گئے اسی طرح کے سائفن سیف اللہ مگسی کینال پر چوکی جمالی کے مقام پر بھی تعمیر کئے گئے جن سے بلوچستان کے اضلاع جعفرآباد اور صحبت پور کے علاقوں سے اخراج شدہ 600کیوسک اور سندھ کے اضلاع کشمور کندھ کوٹ اور جیکب آباد کے علاقوں سے اخراج شدہ 1000کیوسک پانی گزر سکے گا.سندھ کے محکمہ آبپاشی کے مطابق اس منصوبے پر 80 فیصد کام مکمل ہواہے اور مزید20فیصد پرکام جاری ہے. پی سی ون کے تیاری کے دوران سندھ کے محکمہ آبپاشی کے ذ مہ داران نے ان سائفن کے کیلئے این او سی جاری کیا گیا.اس کے باوجود سندھ کا محکمہ آبپاشی کے تحفظات کو کنسلٹنٹ کی ٹیم تک پہنچایا گیا کنسلٹنٹ ٹیم نے اپنی ماہرانہ تجربے کے بعد درج ذیل سفارشات پیش کیے. 1. سائفن کے اوپری جانب ایسے تعمیراتی اسٹرکچر تیار کیے جائیں جس سے صرف 600کیوسک پانی گزر سکے اور اضافی پانی حیر دین کیرئیر ڈرین سے خارج ہو…اس تجویز پر بھی بلوچستان حکومت راضی ہے.2.شہداد کوٹ سے سیم کینال کی پشین 6سے دس فٹ کیے جائیں ..یہ بھی پہلے سے کی گئی ہے..3.شہداد کوٹ مین ڈرین کی ری ماڈلنگ کی جائے.آر.ڈی.او سے 58آر ڈی تک..اب اس کی ری ماڈلنگ ہو چکی ہے مگر واپڈا کی ہٹ دھرمی کہ ان سفارشات کو نظر انداز کرتے ہوئے دیگر تجاویز کو ترجیح دیکر اپنے منصفانہ کردار کو مشکوک بنا دیا.اور سائفن کے مسئلے کو ثانوی حیثیت دے کر اس کی اہمیت کم کرنے کی کوشش کی گئی.یہ منصوبہ ایک قومی منصوبہ ہے جس کی تکمیل سے 10000 کیوسک کا اضافی پانی سیم کاپانی خارج کیا جا سکے گا مگر اس کے باوجود بلوچستان کے علاقوں سے سندھ کا اخراج شدہ پانی جو انسانوں جانوروں اور زرعی زمینوں کیلئے خطرناک ہے حتیٰ کہ سندھ کے محکمہ آبپاشی نے سائفن کھولنے کی راہ میں مختلف قسم کے روڈے اٹکا دیئے سندھ ایریگیشن حکام نے سائفن کے مسئلے کو جو ڈرینج مینجمنٹ سے منسلک ہے اس مسئلے کوفلڈ مینجمنٹ سے جوڑنے کی کوشش کی ہے جس سے بلوچستان کے لوگ اور مقامی آبادیاں گزشتہ دس سالوں سے شدیدطور پر متاثرہو رہے ہیں لوگ بدحالی کا شکارہو چکے ہیں کھانے پینے کی اشیاء ناپید ہو رہی ہیں جبکہ غذائی قلت عام ہو چکی ہے لوگ گھروں کو چھوڑکر نقل مکانی پر مجبورہو گئے ہیں سندھ حکومت اور واپڈا خواب خرگوشکے مزے لے رہے ہیں اور عوام مر رہے ہیں غریب لوگ جائیں تو کہاں جائیں نہ سپریم کورٹ از خود نوٹس لے رہا ہے اور نہ وزیر اعظم کو فرصت ہے کیہ وہ اس مسئلے کا نوٹس لیں. سب لوگ خاموشی سے عوام کی تباہی دیکھ رہے ہیں۔
ناکام منصوبے اور سیلاب کی تباہ کاریاں۔۔۔ ۔۔۔ ببرک کارمل جمالی
وقتِ اشاعت : September 8 – 2014