بلوچستان کے وسائل اور براہوئی مزاحمتی شاعری بلوچستان کی جغرافیہ اور اس کی زمین کے بارے میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ آج کی اور آنے والے وقت میں پہلے سے زیادہ ملکی اور عاملی معیشت اور سیاست میں ایک ایسا حیثیت رکھنا ہے جسے کوئی بھی ملک او رسامراج اپنے آنکھوں سے اوجھل نہیں کرسکتاہے۔دینا میں ایک ایسا خطہ ہے جس کی روح اور رو حانیت جس کا حسن اس کے بہتے پانیوں کی جھنکار اس کی فضاؤں کی ٹھنڈی مہکتی ہوائیں دل کش اور رنگین قدرتی نظارے۔
اور اس کی بہترین (آبشار یں) آب کو ثر کی مثال اور اس کے چٹیل اور خوبصورت اور بارش کے دنوں میں قوس قزح کی رنگین نکھرتی بہاریں یہاں کے براہوئی شعر اء کو الفاظ کے خزانوں سے ہیرے جواہرات کے مانند لفظوں کو چن کراپنی شاعری میں بیان کرنے کے لیے بے بس کرتی ہیں۔ اسی لیے بلوچستان کی حیثیت ہمارے لیے اور باہر کے لوگوں کے لیے جنت کے حوروں سے کم نہیں۔
الفاظ میں بیان کی گئی یہ کیفیت اور حالت جہاں پر بلوچستان کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے، وہیں پر آنے والے لوگوں کی قسمت اور خوش حالی کے سورج کی طلوع ہونے کی نوید بھی سناتی ہے۔اس کے علاوہ بلوچستان میں عالمی استعماری قوتوں اور سامراجوں کے درمیان بلوچستان کی اہمیت کے حوالے سے ان سامراجوں کے درمیان معاشی و دفاعی سرد جنگ اور کش مہ کش کو بھی آئینہ دکھا یا ہے۔
یہ نظارے اور احساس بلوچستان کے مزاحمتی شعراء کے لیے ان کے علم و دانش کے بہتے چشموں کے ٹھنڈے پانی کی مانند دلوں میں جلتے آگ کو سرد کرتے ہیں جس کے اثرات علاقائی اورعالمی ادب کے ساتھ بلوچستان کی معیشت و سیاست اور معاشرے نے بھی اپنے دامن میں سمیٹ لئے ہیں۔ دوسری طرف براہوئی مزاحمتی شعراء نے وطن کی محبت میں قربان ہونے والے شہہ مریدوں کے دلوں کے زخموں کا علاج بھی مزاحمتی شاعری کی دواسے کیا ہے۔ اپنی قوم کو اپنی شاعری سے غلامی کی نیند سے بیدار کرنے کی کوشش کی ہے۔
غلام قوم کے لوگوں کو تم اس لیے اپنے سے طاقت ور سمجھتے ہو کیونکہ تم ایک عرصے سے سجدے میں پڑجائے تو پھر ان کو اپنے طاقتورہونے کا احساس ہی نہیں ہوتا ہے انھیں انداز ہ نہیں ہوتا ہے کہ وہ کتنے طاقتور ہیں۔ قوم او ر ملک پر جب بھی کوئی کھٹن وقت آیا ہے تو براہوئی مزاحمتی ادب نے معیشت سے لے کر سیاست تک ایک بہترین کردار اداکیا ہے۔ وسائل کے حوالے سے بلوچستان و ہ خطہ ہے کہ جس کے دامن کا ہر پہلو سونا اگلتا ہے، اس کے وسائل اس کے دامن سے پانی کی طرح بہتے ہیں اس کا ہر ایک بیابان سونے چاندی سے لبریز ہیں مگر پھر بھی اس کا سینہ دیکھتے کو ئلوں کی طرح جلتا ہے۔
ریکوڈک اور سیندک گیس ہو یا تیل اس کے علاوہ بلوچستان کے حسن کی تعریف بھی ناممکن ہے جسے شاعر اپنے محبوبہ کی تعریف اس کے قدوکاٹھ جمیل جیسی آنکھیں اور گلاب کے پنکھڑیوں سے اسکے ہونٹوں کو مشابہ کرکے بیان کرتا ہے وہ اس کو یوں بیان کرتا ہے کہ اس کی عمر کبھی ڈھلتی نہیں ہے یہاں مزاحمتی شاعری میں یہ سب تعریف بلوچستان کے لیے ہوتا ہے اگر میں اس کے دامن کشیدہ کاری کیا ہوا گوادر کا بات کروں یا اس کے چادر کے پلومیں بہتے پانیوں سے لبر یز ساحل کی بات کروں تو پتہ چلتاہے کہ یہ وہ جل پری ہے جس کی خوبصورتی اور حسن کا جمال کوئی غیر ملک اور غیر قوم برداشت بھی نہیں کرسکتاہے۔
گودار اپنی خوبصورتی میں اتنا مست ہے کہ اگر کوئی اس سے بغل گیر ہوگا توضرور وہ شے مرید کے نسل سے ہوگا۔ ایک وقت تھا کہ بین الااقوامی طاقتوں کے درمیان سرد جنگ میں روس نے اپنا شہزادہ بکھیر دیا اور اس طرح گرم پانیوں کے معاملے میں سنگار پور اورچین دو بدو ہوگئے تھے۔ امریکہ بھی میدان میں اتر نے کے لیے تیا ر کھڑا ہے اس کے علاہ کئی اور بین الااقوامی قوتیں۔ گوادر غریب وطن کی خوبصورت بیٹی ہے قوم کی عزت و ننگ ونا موس کی نشان ہے۔ گوادر رکھارے پانی کا وہ خزانہ ہے جہاں کے کھارے پانی میں قیمتی مچھلیا ں ہیں۔
اور جن کی فروخت سے سرمایہ دار طبقہ کا پیٹ پل رہا ہے اور یہاں کے کھارے پانی کی نعتوں کے بغیر دنیا کے فائیواسٹار ہوٹلز کا دستر خوان پھیکا رہتاہے یہ وہ حسینہ ہے جسے ہرکوئی حاصل کرنا چاہتاہے اور 20سال پہلے سردار عطاء اللہ مینگل نے پیش گوئی کرکے کہا تھا کہ گوادر جیسی حسینہ کو حاصل کرنے کے لیے عالمی سامراجی سانڈوں کی لڑائی میں ہم مفت میں روندے جائیں گے۔(جاری ہے)