|

وقتِ اشاعت :   September 8 – 2014

اسلام آباد : حکومت اور پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) کے درمیان مذاکرات کا ایک اور دور اتوار کو اسلام آباد میں ہوا جس میں دونوں اطراف سے ” پیشرفت” کے دعویٰ کے ساتھ یہ بھی تسلیم کیا گیا ہے کہ ” کچھ معاملات” پر تاحال اختلافات موجود ہیں جنھیں حل کیے جانے کی ضرورت ہے۔ پی ٹی آئی سیکرٹری جنرل جہانگیر ترین کی رہائشگاہ پر تین گھنٹے طویل اجلاس کے بعد صحافیوں سے مختصر بات چیت میں تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے قرار دیا کہ ” بامعنی مذاکرات کا آغاز” ہوگیا ہے اور دونوں اطراف کی جانب سے ” قوم کو موجودہ سیاسی بحران سے نکالنے کے لیے سنجیدہ کوششیں کی جارہی ہیں”۔ یہ پہلی بار ہے کہ پی ٹی آئی نے بات چیت پر اس طرح کے مثبت جذبات کا اظہار کیا ہے، اس سے قبل وہ حکومتی مذاکرات کاروں پر غیرسنجیدگی یا دیگر الزامات عائد کرتے رہے تھے۔ حکومتی وفد کے سربراہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے صحافیوں کو بتایا کہ دونوں جماعتوں کی دوبارہ ملاقات پیر کو ہوگی جس میں باقی ماندہ معاملات کا حل نکالنے کی کوشش کی جائے گی۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ معاملات کون سے ہیں تو اسحاق ڈار نے کہا کہ صحافی تحمل سے کام لیں اور پیر تک انتظار کریں۔ جب صحافیوں نے یہ سوال کیا کہ مذاکرات کس حد تک کامیاب رہے ہیں تو شاہ محمود قریشی نے کہا کہ بات چیت کی کامیابی کا فیصد میں تعین نہیں کیا جاسکتا” مذاکرات سنجیدگی سے جاری ہیں اور اب بامعنی بات چیت ہورہی ہے”۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ حکومت سیاسی بحران کے خاتمے کے لیے کوششیں کررہی ہیں کیونکہ احتجاجی مظاہروں کے باعث ملک کو معاشی نقصانات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے” ہم اس بحران کا خاتمہ چاہتے ہیں تاکہ ملکی معیشت کو پھر سے ڈگر پر لایا جاسکے”۔ دونوں رہنماﺅں نے مذاکرات کے عمل میں رکاوٹ کے حوالے سے سوالات کا جواب دینے سے گریز کیا اور اس کی بجائے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں حالیہ بارشوں سے ہونے والے جانی نقصان پر افسوس کا اظہار کیا۔ شاہ محمود قریشی نے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک کی جانب سے بارش سے متاثرہ علاقوں میں امداد کی فراہمی سے آگاہ کیا، جبکہ اسحاق ڈار نے پنجاب میں متاثرہ افراد کی امداد کے لیے وفاق اور صوبائی حکومتوں کے اقدامات کی جانب توجہ دلائی۔ اس موقع پر اسحاق ڈار نے یہ دعا بھی کی” عمران خان دھرنا ختم کرکے سیلاب سے متاثر افراد کی امداد کے لیے جائیں”۔ جس پر شاہ محمود قریشی نے فوری ردعمل کا اظہار اس دعا کے ساتھ کیا” اللہ ڈار صاحب کا دل دھرنے کے شرکاءکے لیے نرم کردے”۔ انہوں نے مزید کہا کہ پی ٹی آئی کو پارٹی کی تجاویز پر حکومتی ردعمل پر مشتمل ایک اور دستاویز دی گئی ہے۔ عارف علوی نے بعد میں ڈان کو بتایا کہ “معاہدے میں رکاوٹ” میں بنیادی مسئلہ وزیراعظم کا استعفیٰ ہے، جو ابھی تک حل نہیں ہوسکا ہے۔پی ٹی آئی کی جانب سے شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین جبکہ حکومتی ٹیم اسحاق ڈار اور وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی زاہد حامد پر مشتمل تھی، پی ٹی آئی کے کراچی سے رکن قومی اسمبلی عارف علوی اور کے پی کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک بھی اپنی پارٹی رہنماﺅں کی معاونت کے لیے اجلاس میں موجود تھے، جبکہ قانونی رائے دینے کے لیے پی ٹی آئی کے وکلاءبھی وہاں موجود تھے۔ عارف علوی نے کہا کہ لگتا نہیں کہ پیر کو مذاکرات کا کوئی نتیجہ نکل سکے گا اور توقع ہے کہ یہ سلسلہ مزید چند روز چلے گا۔ پی ٹی آئی کی درخواست پر ہفتے کے روز مذاکرات نہیں ہوئے تھے کیونکہ پارٹی اپنی تجاویز پر حکومتی جواب پر نظرثانی کے لیے وقت چاہتی تھی۔ سیاسی ماہرین کا ماننا ہے کہ چینی صدر کے دورے کے منسوخ ہونے کے بعد حکومت کودونوں احتجاجی جماعتوں کے معاملے سے نمٹنے کے لیے مزید وقت مل گیا ہے۔ مذاکرات کاروں کی توجہ رپورٹس کے مطابق نکات کی تیاری اور انتخابی دھاندلی پر مجوزہ عدالتی کمیشن کی تحقیقات میں آنے والے حقائق پر قانونی عملدرآمد پر مرکوز ہے۔