|

وقتِ اشاعت :   May 2 – 2020

یوم مئی، مزدوروں کا عالمی دن یا لیبر ڈے، ہم کیوں مناتے ہیں۔ ہوتا یہ تھا کہ مزدور کی زندگی ایک گدھے کے برابر تھی۔ ایک جانور کی طرح مزدور سے کام لیا جاتا تھا۔ دن میں 16-16 گھنٹے کام لیا جاتا۔ تنخواہ بھی کچھ خاص نہیں تھی، اوور ٹائم کا تصور ہی نہیں تھا۔ ڈیوٹی کے دوران اگر کوئی مزدور زخمی ہو جاتا یا مر جاتا تو اس کے تمام اخراجات خود مزدور کے ذمہ تھے، فیکٹری یا مل کی طرف سے ایسا کوئی قانون نہیں تھا کہ مزدور کو زخمی ہونے کی صورت میں اس کا علاج کروایا جاتا۔ مزدور کی ملازمت کا فیصلہ مالک کی صوابدید پر ہوتا وہ جس کو چاہتا ملازمت پر رکھتا اور جس کو چاہتا ملازمت سے ہٹا دیتا۔ ہفتے میں سات دن کام کرنا پڑتا، چھٹی کا کوئی تصور ہی نہیں تھا۔

ان تمام مسائل کو حل کرنے کے لئے امریکہ اور یورپ میں مزدوروں نے مختلف تحریکیں چلائیں 1884ء میں فیڈریشن آف آرگنائزڈ ٹریڈرز اینڈ لیبر یونینز نے اپنا ایک اجلاس منعقد کیا، جس میں انہوں نے ایک قرارداد پیش کی۔ قرارداد میں کچھ مطالبے رکھے گئے، جن میں سب سے اہم مطالبہ ‘مزدوروں کے اوقات کار کو 16 گھنٹوں سے کم کر کے 8 گھنٹے کیا جائے۔ مزدوروں کا کہنا تھا 8 گھنٹے کام کے لئے، 8 گھنٹے آرام کے لئے اور 8 گھنٹے ہماری مرضی کے۔ یہ مطالبہ یکم مئی سے لاگو کرنے کی تجویز پیش کی گئی۔

لیکن اس مطالبہ کو تمام قانونی راستوں سے منوانے کی کوشش ناکام ہونے کی صورت میں یکم مئی کو ہی ہڑتال کا اعلان کیا گیا اور جب تک مطالبات نہ مانے جائیں یہ تحریک جاری رہے گی۔ 16-16 گھنٹے کام کرنے والے مزدوروں میں 8 گھنٹے کام کا نعرہ بہت مقبول ہوا۔ اسی وجہ سے اپریل 1886 ء تک 2 لاکھ 50 ہزار سے زیادہ مزدور اس ہڑتال میں شامل ہونے کے لئے تیار ہو گئے۔ اس تحریک کا آغاز امریکہ کے شہر “شکاگو” سے ہوا۔ ہڑتال سے نپٹنے کے لئے جدید اسلحہ سے لیس پولیس کی تعداد شہر میں بڑھا دی گئی۔ یہ اسلحہ اور دیگر سامان پولیس کو مقامی سرمایہ داروں نے مہیا کیا تھا۔

تاریخ کا آغاز یکم مئی سے شروع ہو گیا۔ پہلے روز ہڑتال بہت کامیاب رہی دوسرے دن یعنی 2 مئی کو بھی ہڑتال بہت کامیاب اور پْر امن رہی۔ لیکن تیسرے دن ایک فیکٹری کے اندر پولیس نے پر امن اور نہتے مزدوروں پر فائرنگ کر دی، جس کی وجہ سے چار مزدور ہلاک اور بہت سے زخمی ہو گئے۔اس واقعہ کے خلاف تحریک کے منتظمین نے اگلے ہی روز 4 مئی کو ایک بڑے احتجاجی جلسے کا اعلان کیا۔ اگلے روز جلسہ پْر امن جاری تھا، لیکن آخری مقرر کے خطاب کے دوران پولیس نے اچانک فائرنگ شروع کر کے بہت سے مزدور ہلاک اور زخمی کر دیئے۔

پولیس نے یہ الزام لگایا کہ مظاہرین میں سے ان پر گرینیڈ سے حملہ کیا گیا ہے، جس کی وجہ سے ایک پولیس افسر ہلاک اور کئی زخمی ہو گئے۔ اس حملے کو بہانہ بنا کر پولیس نے گھر گھر چھاپے مارے اور بائیں بازو اور مزدور رہنماؤں کو گرفتار کر لیا۔ ایک جعلی مقدمے میں آ ٹھ مزدور رہنماؤں کو سزائے موت دے دی گئی۔

البرٹ پار سن، آ گسٹ سپائز، ایڈولف فشر اور جارج اینجل کو 11 نومبر 1887ء کو پھانسی دے دی گئی۔ لوئیس لنگ نے جیل میں خود کشی کر لی اور باقی تینوں کو 1893ء میں معافی دے کر رہا کر دیا گیا۔ مئی کی اس مزدور تحریک نے آنے والے دنوں میں طبقاتی جدوجہد کے متعلق شعور میں انتہائی اضافہ کیا۔ ایک نوجوان لڑکی ایما گولڈ نے کہا کہ ”مئی 1886ء کے واقعات کے بعد میں محسوس کرتی ہوں کہ میرے سیاسی شعور کی پیدائش اس واقعے کے بعد ہوئی ہے“۔ البرٹ پارسن کی بیوہ لوسی پارسن نے کہا ”دنیا کے غریبوں کو چاہئے کہ اپنی نفرت کو ان طبقوں کی طرف موڑ دیں جو انکی غربت کے ذمہ دار ہیں، یعنی سرمایہ دار طبقہ“۔ جب مزدوروں پر فائرنگ ہو رہی تھی تو ایک مزدور نے اپنا سفید جھنڈا ایک زخمی مزدور کے خون میں سرخ کر کے ہوا میں لہرا دیا۔ اسکے بعد مزدور تحریک کا جھنڈا ہمیشہ سرخ رہا۔

1889ء میں ریمنڈ لیوین کی تجویز پر یکم مئی 1890ء کو یوم مئی کے طور پر منانے کا اعلان کیا گیا۔ اس دن کی تقریبات بہت کامیاب رہیں۔ اس کے بعد یہ دن ”عالمی یوم مزدور“ کے طور پر منایا جانے لگا سوائے امریکہ، کینیڈا اور جنوبی افریقہ کے۔ جنوبی افریقہ میں غالباً نسل پرست حکومت کے خاتمے کے بعد یوم مئی وہاں بھی منایا جانے لگا۔ مزدور اور دیگر استحصال زدہ طبقات کی حکومت لینن کی سربراہی میں اکتوبر انقلاب کے بعد سوویت یونین میں قائم ہوئی۔

اسکے بعد مزدور طبقے کی عالمی تحریک بڑی تیزی سے پھیلی اور چالیس پچاس سالوں میں دنیا کی تقریباً نصف آبادی پر مزدور طبقے کا انقلابی سرخ پرچم لہرانے لگا۔اب یہ دنیا بھر میں دوسرے ممالک کے ساتھ ساتھ بڑے بڑے سرمایہ دار ممالک بھی اس دن کو بڑے اہتمام کے ساتھ مناتے ہیں اور بڑے بڑے عالمی لیڈر یکم مئی کی جدوجہد کا ذکر کر رہے ہوتے ہیں، یہ دن عام طور پر دنیا میں مزدوروں کی کامیابی کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے اور اسکو “یوم مزدور” کہتے ہیں۔

جہاں تک ترقی یافتہ ممالک کی بات ہے وہاں یقیناً مزدوروں کے لئے بنیادی سہولتوں میں کافی آسانیاں ہوئی ہیں، صحت اور تعلیم ہر انسان کا بنیادی حق ہے اور اْس میں چھوٹے یا بڑے کا کوئی فرق نہیں۔ مزدوروں کو جو بنیادی اجرت دی جاتی ہے اْس سے اْن کا اور اْن کے بچوں کا گزارا آرام سے ہو جاتا ہے۔ پاکستان میں اس دن کو متعارف کرانے کا سہراذوالفقار علی بھٹو کے سر ہے، بھٹو نے روٹی، کپڑا اور مکان کا دلکش نعرہ لگا کر پورے پاکستان کے مزدوروں کو اپنے ساتھ ملا لیا، لیکن افسوس بھٹو صاحب مزدوروں کی حالت تو کیا بدلتے اْنکے دور میں صنعتوں، بنکوں، لائف انشورنس اور دوسرے ذرائع پیداوار حکومتی تحویل میں لینے سے مزدوروں کو نقصان ہی پہنچا۔

بعد میں دو مرتبہ اْنکی بیٹی بینظیر بھٹو اور ایک مرتبہ اْنکے داماد آصف علی زرداری بھی روٹی، کپڑا اور مکان کا دلکش نعرہ لگا کر برسراقتدار رہے، مگر مزدوروں کی حالت بد سے بدتر ہوتی چلی گئی۔ بھٹو کے بعد ضیاء الحق سے آج عمران خان تک ہر حکومت یکم مئی ضرور مناتی ہے، اور اْس دن وزیراعظم یا صدر سے لے کر محلے کے لیڈر تک، ہر ایک اپنے مزدور بھائی کی پریشانیوں کے غم میں ڈوبا ہوا ہوتا ہے، حکومتی سطح پر بہت سارے وعدے کئے جاتے ہیں لیکن اگلے یکم مئی کو مزدوروں کی حالت پہلے سے بدتر ہوتی ہے۔

یکم مئی کے بارے میں کمال احمد جو ایک جوتوں کی دوکان پر کام کرتے ہیں اْن کا کہنا ہے کہ “اْنہیں اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ یکم مئی کو “یوم مزدور” منایا جاتا ہے۔ مزدوروں کے اس دن کی ان کی زندگی میں کوئی اہمیت نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ”یومِ مزدور میرے لئے صرف کاغذوں پر ہے، کیونکہ مجھے اس دن کوئی چھٹی نہیں ملتی۔ اگر اس روز میں چھٹی کر لوں تو ایک دن کی تنخواہ کاٹ لی جائے گی۔“ یہ کہانی صرف کمال احمد کی ہی نہیں ہے بلکہ اس طرح کے لاتعداد مزدور جو سبزی فروخت کرتے ہیں یا رکشہ چلاتے ہیں یا روز کی مزدوری کرتے ہیں، ملک کے گوشے گوشے میں مل جائیں گے۔

بات ان پریشان حال مزدوروں کی ہو رہی ہے جو ملک کو ترقی کی راہ پر آگے بڑھانے میں خوب محنت و مشقت کرتے ہیں، لیکن ان کی نجی زندگی زبوں حالی کا شکار ہے۔ افسوس کا مقام ہے کہ ایسے پریشان حال مزدوروں کی تعداد ہمارے ملک میں بہت زیادہ ہے۔ ملک میں شاید ہی کوئی ایسا مقام ہو جہاں مزدوروں کا استحصال نہ ہوتا ہو۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے اور افسوس کا مقام بھی کہ جو دن مزدوروں کے لئے مخصوص کر دیا گیا اس دن بھی انہیں سکون میسر نہیں۔ ایک طرف جہاں روزانہ کی آمدنی کی مزدوروں کو یہ فکر ہوتی ہے کہ کام نہیں کریں گے تو گھر میں چولہا کیسے جلے گا، وہیں مہینے میں تنخواہ پانے والے مزدور ایک دن کی تنخواہ کٹنے سے خوفزدہ رہتے ہیں اور یکم مئی کو بھی کام پر چلے جاتے ہیں۔ ایک عام مزدور جو صبح چوک پر اپنی مزدوری کا انتظار کرتا ہے۔

جو صبح مزدوری کرتا ہے اور رات کو اس کا چولہا جلتا ہے۔ کسی بھی سرکاری یا پرائیوٹ چھٹی کے ساتھ ہی اس کے گھر میں فاقے کی آمد ہوتی ہے۔ ایسے مزدوروں کی زندگی میں یکم مئی کی کیا اہمیت ہو گی؟

آج صورت حال یہ ہے کہ حکومتی سطح پر یکم مئی کو عام تعطیل ہوتی ہے، حکومتی اور عوامی سطح پر بڑے بڑے اجلاس ہوتے ہیں اور سمینار کا انعقاد بھی کیا جاتا ہے، لیکن اس کا فائدہ مزدوروں کو ہرگز نہیں ہوتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حکومت کے ذریعہ مزدوروں کے لئے شروع کئے گئے منصوبے بھی صرف دھوکہ ثابت ہوتے رہے ہیں۔ مزدوروں کی آواز اٹھانے کے لئے کئی ادارے بھی ہیں، لیکن یہ ماضی کی بات ہو گئی ہے کہ وہ خلوص نیت کے ساتھ مزدوروں کے مفاد کی بات کریں۔

زیادہ تر ٹریڈ یونینوں کے لیڈران بدعنوان سیاسی نظام کا حصہ بن چکے ہیں۔ یہ مزدور لیڈران اسٹیج پر تو بآواز بلند مزدوروں کے مفاد کی بات کرتے ہیں لیکن تنہائی میں کمپنی یا کارخانہ مالکان سے سودے بازی کر کے مزدوروں کی پریشانیوں میں اضافہ کرتے ہیں۔

ہمارے ملک میں مزدوروں کی حالت زار سے سبھی واقف ہیں۔ آج حالات یہ ہیں کہ بہت سے مزدوروں کو یہ بھی معلوم نہیں کہ یکم مئی کے روز “یوم مزدور” منایا جاتا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی بھی منصوبہ یا کوئی بھی قانون مزدوروں کو اس کا حق دلانے میں کامیاب نہیں ہے۔ مزدور کل بھی کمزور تھے، آج بھی کمزور ہیں۔ مزدور کل بھی مفلوک الحال تھے، آج بھی مفلوک الحال ہیں۔ مزدور کل بھی مظلوم تھے، آج بھی مظلوم ہیں۔ ان ہی مفلوک الحال اور مظلوم مزدوروں کے بارے میں ایک شاعرنے کہا ہے:۔

۔ سو جاتے ہیں فٹ پاتھ پہ اخبار بچھا کر
مزدور کبھی نیند کی گولی نہیں کھاتے

پاکستان میں جہاں پچاس فیصد سے زیادہ آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہو، وہاں مزدور اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے کی فکر میں ہی “یوم مزدور” عام دنوں کی طرح گزار دیتے ہیں لیکن دوسری طرف اس ملک میں “یوم مزدور” کو بڑی بڑی کمپنیوں میں اعلیٰ عہدوں پر فائز اور آرام و آسائش کی زندگی بسر کرنے والے، سرکاری اداروں میں کام کرنے والے صاحب لوگ یہ ضرور جانتے ہیں کہ یکم مئی کے روز چھٹی ہوتی ہے۔

لیکن یہ بھی صرف اتنا ہی جانتے ہیں کہ اس روز چھٹی ہوتی ہے۔ “یوم مزدور” کیوں منایا جاتا ہے اور اس کے کیا مقاصد ہیں، اس سے انہیں کوئی سروکار نہیں۔ اس ملک کے مفلوک الحال اور مظلوم مزدور شاید یہ سمجھتے ہیں کہ یکم مئی: “یوم مزدور” صاحب کے آرام کا دن ہوتا ہے اور اْس دن صاحب لوگ آرام کرتے ہیں۔