شکیسپئر نے سیون ایجز آف مین میں زندگی کی بہترین تصویر کشی کی ہے گویا ایسا لگتا ہو زندگی ایک کتاب کی مانند ہو جو مختلف ابواب پر مشتمل ہو۔ہر باب میں ندرت الفاظ کا ذخیرہ ہو صفحوں پہ مختلف رنگوں کے ساتھ بہترین تصویر کاری اور منظر کشی کی گئی ہو تاکہ جاذب نظر لگے اور پڑھنے والا اس پر اپنی غائرانہ نظر جمائے رکھے۔لیکن تاسف یہ ہے کہ اتنی خوبصورت کتاب کو قاری پڑھنے کے بعد کسی دن ایک کونے میں رکھ دیتا ہے پھر یہ کتاب دیمک کی نظر ہو جاتی ہے۔
سیون ایجز آف مین کو پڑھنے کے بعد ایک اور خیال جنم لیتا ہے یہ زندگی ایک ڈرامے اور فلم کی طرح ہے جو مختلف اقساط اور مختلف الخیال پر مبنی ہوتا ہے۔بالآخرڈرامہ تمام اقساط مکمل ہونے اور کبھی طویل کبھی مختصر دورانیے کے بعد اختتام پذیر ہوجا تا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ کسی ڈرامے یا فلم میں اداکار ہی اس میں جان ڈالتے ہیں ان کی بہتر کار کردگی سے ڈرامے میں چار چاند لگ جاتے ہیں ڈرامہ میں یہ سب کچھ افسانوی انداز سے کیا جاتا ہے اگر دیکھا جائے تو ہم سب بھی زندگی میں اپنے کردار نبھا رہے ہیں اب یہ ہم پہ منحصر ہے کہ زندگی کے ساتھ ہم کتنا انصاف کرتے ہیں۔کچھ لوگ بہتر اداکاری کے باعث زندگی کے اختتام پذیر ہونے کے بعد بھی امر ہو جاتے ہیں چاہے یہ اداکاری حقیقی د نیا کی ہو یا فلمی دنیا کی،لیکن جس لگن کے ساتھ اسے نبھایا جاتا ہے اتنا ہی یہ کردار امر ہو جاتا ہے اور در حقیقت زندگی مختلف النوع کرداروں کا نام ہی تو ہے۔
عرفان خان بھی ان کرداروں میں سے ایک کردار تھا۔عام کرداروں کو خاص کرنے والا، مردہ کرداروں میں جان ڈالنے والا،اس کا ہر عضو اداکاری کے جوہر دیکھتا تھا لیکن آنکھوں کی فنکاری اور ابلے ہوئے دیدوں کی اداکاری سب پہ بھاری تھی۔کوئی ایسا حقیقی کردار کیسے نبھا سکتا ہے۔کیسے انصاف کے ساتھ انوکھی بیماری کا کردار نبھایا تخلیق کار جتنا بڑا ہوتا ہے اتنا ہی حساس ہوتا ہے ایسے اداکار کو کرب سے گزرنے کے لیے پاپڑ بیلنے نہیں پڑتے وہ اپنے غائر فن سے سب نبھا جاتے ہیں۔
کیا عرفان خان فلمی دنیا میں ایسے کردار کے ساتھ انصاف کرتے جس میں کرب کی انتہا سے گزرنا ہو، طویل عرصہ علیل رہتے ہوئے اس نے کردار کو خوب نبھایا، اس نے بتایا کہ زندگی کے کرداروں کے ساتھ نبھا کرنا سیکھیں ہمہ وقت زندگی کے کردار ایک سے نہیں رہتے،یہ منظر فلمی دنیا کی طرح بدلتے رہتے ہیں بس ان کرداروں کو نبھانا سیکھیں۔
درد سہتے کرب میں لپٹے اور ماں کے غم میں ڈوبے عرفان بیماری سے لڑتا رہا، بیٹے کے کرب نے ماں کو بھی جانبر ہونے نہ دیا کتنے جاں گسل لمحات تھے اپنے خوابوں کو ادھورا چھوڑتے ہوئے بلآخر موت کی آنکھوں میں اپنے موٹے موٹے دیدے انڈیل دئیے۔اتنا بڑا فنکار جو فلمی کرداروں میں حقیقت کارنگ بھرنے والا حقیقی زندگی میں اوور ایکٹنگ کرگیا۔اس اوور ایکٹنگ میں بھی کوئی بھید پنہاں ہے۔
شاید اسے ماں نے بلایا ہو اور وہ سر تسلیم خم کیے ماں کے ہاں حاضر ہونے کے لیے ایسی اوور ایکٹنگ کرگیاکیونکہ وہ جانتا تھا ماں کے بغیر زندگی کے کردار پھیکے ہوتے ہیں۔ پھر کرداروں کو نبھانا اتنا سہل نہیں ہوتا۔فلم مکمل ہوئی کیمرے آف ہوئے روشنیاں گل ہوگئیں۔عرفان نے سکون سے آنکھیں بند کر لیں اور فلمی دنیا کو خیرباد کہہ دیا
اللہ اس کی مغفرت فر مائے۔