|

وقتِ اشاعت :   May 3 – 2020

ڈاکٹر عبدالمالک کو جس وقت وزیر اعلیٰ بلوچستان بنے اس وقت بلوچستان کی سیاسی صورتحال انتہائی دگر گوں تھی ہر طرف بم دھماکوں کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں لاء اینڈ آرڈر کا مسئلہ سب کیلئے سوہان روح بنا ہوا تھا، فرقہ وارانہ کشیدگی تھمنے کا نام نہیں لے رہی تھی، ہزارہ برادری کا خون اس قدر ارزاں تھا کہ دن دھاڑے سر بازار سینکڑوں افراد روزانہ گولیوں کا نشانہ بن رہے تھے۔

شیعہ سنی فسادات کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری تھا۔ سر شام کوئٹہ سمیت بلوچستان کے بیشتر بازار بند ہوا کرتے تھے، ایک خوف کا ماحول تھا گھر سے نکلتے ہوئے کوئی یہ یقین سے نہیں کہہ سکتا تھا وہ صحیح سلامت دوبارہ گھر پہنچ پائے گا کہ نہیں، ہر طرف مایوسیوں کے گھٹا ٹوپ اندھیرے چھائے ہوئے تھے ہر طبقہ فکر پریشان تھا۔ طالب علم اپنے علم کی پیاس بجھانے سے کترا رہے تھے،دکان دار دکان داری سے ڈر رہے تھے۔

مزدور دیہاڑی دار راہ گیروں کو یہ فکر لاحق تھی کہیں اندھی گولی ان کے سینے سے ہار پار نہ ہو اور بے موت مر نہ جائیں۔چوری چکاری عام تھی، شاہرائیں غیر محفوظ تھیں،کوئٹہ کراچی شاہراہ پر سفر کرتے ہوئے لوگ ڈرتے تھے کہیں رہزن انھیں نہ لوٹ لیں، اکثر و بیشتر اس شاہرہ پر مسافروں کی جامع تلاشی لی جاتی تھی اسطرح کے واقعات روز کے معمول تھے بقول مولانا طارق جمیل صاحب کے جس نے موجودہ وزیر اعظم عمران خان کے بارے میں کہا کہ ان کو اجڑا چمن ملا ہے مگر یہ بات ڈاکٹر عبدالمالک کے بارے میں بالکل صادق آتی ہے کہ انھیں اجڑا چمن ملا لیکن ڈاکٹر عبدالمالک صاحب اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ سیاسی طور پر تربیت یافتہ شخص تھے۔

زمانہ طالبعلمی سے انھوں نے بی ایس او جیسی عظیم انقلابی تنظیم سے سیاسی تربیت حاصل کی تھی،عملی سیاست میں وہ شہید نواب اکبر بگٹی اور ذولفقار علی مگسی کے کابینہ میں بطور وزیر صحت اور وزیر تعلیم رہ چکے تھے، سرد و گرم چشیدہ تھے ملکی بین الاقوامی سیاسی حالات کا بغور مطالعہ کیا تھا،ایک وژنری قائد کے طور پر ابھر کر سامنے آئے تھے۔بی ایس او،بی این وائی ایم، بی این ایم، و نیشنل پارٹی کی قیادت کرنے کے ساتھ ساتھ ایک طویل سیاسی جد وجہد کے پیداوار تھے باقیوں کی طرح خود رو نہیں تھے اور نہ ہی کسی آمریت کے گملے میں پرورش پائی تھی،ان کی طویل سیاسی سفر انتہائی کھٹن دشوار گزار راستوں پرگزرنے کے بعد آپ نے یہ ہمالیہ کی چوٹی سر کر لی تھی۔

اس نے پہلے غیر سردار و روایتی سیاستدان سے ہٹ کر یہ کا مقام حاصل کیا ون یونٹ کے خاتمے اور بلوچستان کو صوبائی حیثیت ملنے کے بعد وہ واحد وزیر اعلیٰ بنے جو سردار و نواب نہیں بلکہ ایک عام بلوچ بقول ان کے اپنے فٹ پاتھوں سے آئے تھے گو کہ بلوچستان اسمبلی میں ان کی پارٹی کو اکثریت حاصل نہیں تھی لیکن ایک مخلوط حکومت تشکیل دینے میں کامیاب ہوئے۔پختون خوا میپ،مسلم لیگ ن اور آزاد امیدواروں کو ملا کر ایک کمزور پوزیشن میں اپنی اننگز کا آغاز کیا، دیکھتے ہی دیکھتے انھوں نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا، ڈھائی سال تک بلوچستان کے وزیر اعلیٰ رہے اور اس دوران انھیں اپنے اتحادیوں کے ساتھ بہت تلخ تجربات کا سامنا رہا۔

ان ڈھائی سالوں میں ان کے اپنے اتحادیوں نے کبھی دل سے ان کے ساتھ تعاون نہیں کیا۔ مسلم لیگ ن نے شروع دن سے سازشیں بننا شروع کیں اور ہر وقت ڈاکٹر عبدالمالک کی حکومت کو ناکام بنانے کی کوششوں میں لگے رہے تاکہ انھیں اقتدار مل سکے مگر چوں کہ ڈاکٹر عبدالمالک ایک منجھے ہوئے سیاسی کھلاڑی تھے انہوں نے ان تمام حالات کا مردانہ وار مقابلہ کیا۔ جب ڈاکٹر عبدالمالک نے اقتدار سنبھالا تو بلوچستان کی سیاسی معاشی ترقی کا پہیہ جام تھا۔ تعلیمی و صحت کے حوالے سے بھی صورت حال انتہائی تشویشناک تھی ستر سال گزر کے باوجود بلوچستان میں صرف ایک یونیورسٹی تھی، پورے بلوچستان کے لوگ دور دراز اضلاع سے کوئٹہ تعلیم حاصل کرنے آتے تھے،کوئی میڈیکل یونیورسٹی نہیں تھی بلکہ ایک میڈیکل کالج بی ایم سی تھی اور بس۔

انجینئرنگ یونیورسٹی بھی نہیں تھی ڈاکٹر عبدالمالک نے اقتدار سنبھالتے ہی تعلیم و صحت پر خصوصی توجہ مرکوز کی، بلوچستان کے مختلف اضلاع میں یونیورسٹیوں کے کیمپس قائم کئے۔ کیچ، گوادر، پنجگور، لورالائی، سبی خضدار ہر جگہ بلوچستان یونیورسٹی کی برانچیں کھول دیں۔ بی ایم سی کو یونیورسٹی کادرجہ دیا، خضدار انجینئرنگ کالج کو یونیورسٹی کا درجہ دیا، مختلف علاقوں میں ترقیاتی منصوبوں کا جال بچھایا، آبنوشی و زراعت کے لئے ڈیم بنائے اور اپنے حلقہ انتخاب کیچ کو دلہن کی طرح سجا دیا۔

اگر آج کوئی بھی شخص کیچ کے ضلعی ہیڈکوارٹر تربت میں گھومتا ہے تو اسے یہ یقین نہیں آتا کہ یہ بلوچستان کا کوئی ضلع ہے بلکہ یہی گمان گزرتا ہے کہ یہ کسی خلیجی ممالک یا یورپ کا حصہ ہے، ہر طرف پکی سڑکیں،اسٹریٹ لائٹس،سیوریج کا جدید نظام، انتظامیہ کے دفاتر،سرکٹ ہاؤس،بس ٹرمینل،لائبریری،لا کالج یونیورسٹی اور روزگار کیلئے کسی سیاسی امتیاز کو خاطر میں لائے بغیر میرٹ کو اولیت دے کر ایک نئی تاریخ رقم کی۔

غرض ڈاکٹر عبدالمالک نے ان ڈھائی سالوں کے دوران ترقیاتی منصوبوں کو بروقت مکمل کرکے اپنے حلقے کے عوام کی نمائندگی کا حق خوب نبھایا جب کیچ اور ڈاکٹر عبدالمالک کا موازنہ سراوان، جھلاوان،نصیر آباد، جھل مگسی،لسبیلہ و ان کے نمائندوں سے کریں تو ہمیں ان علاقوں میں وژن اور قیادت کا فقدان نظر آئے گا۔ کئی پشتوں سے اقتدار کے مزے لوٹنے والوں نے صرف اقتدار کا مزہ لیا ہے لیکن اپنے علاقے اور عوام کے لئے کچھ نہیں کیا۔سردار عطااللہ مینگل، شہید نواب اکبر خان بگٹی، اخترجان مینگل، نواب ثناء اللہ زہری، تاج محمد جمالی، خان محمد جمالی ظفر اللہ جمالی نواب ذوالفقار علی مگسی، جام غلام قادرعالیانی، میر جام یوسف عالیانی، میر جام کمال خان عالیانی تین پشتوں سے وفاقی وزیر، وزیر اعلیٰ رہے،ظفر اللہ جمالی وزیر اعظم پاکستان رہے لیکن ان کے حلقہ انتخاب کے عوام دو گھونٹ پانی کے لئے ترستے ہیں، ایک ڈھنگ کا ہسپتال و تعلیمی ادارہ قائم کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے۔

نصیر آباد و جعفرآباد جھل مگسی آج قرون وسطیٰ کا منظر پیش کر رہے ہیں یہی صورت حال سراوان و جھلاوان کی ہے جہاں خواتین ڈیلیوری کے دوران ایڑیاں رگڑ رگڑ کر جان،جان آفریں کے سپرد کر دیتی ہیں نہ صحت کی سہولیات ہیں اور نہ تعلیمی سہولیات اور سب سے بڑھ کر دو وقت کی روٹی کے کیلئے در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔یہی صورت حال ڈسٹرکٹ لسبیلہ کی ہے یہاں تین پشتوں سے حکمرانی کے مزے لوٹنے والے اپنے عوام کو روزگار دینے سے قاصر رہے ہیں۔

تعلیم و صحت کی سہولیات مفقود ہیں مفادعامہ کے لیے ترقیاتی منصوبوں کا کوئی نام و نشان نہیں ہے لسبیلہ میں آج کے جدید ترقیاتی دور میں بھی بچے،کچے بنے ہوئے مکان نما اسکولوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔صحت و صفائی نام کی کوئی چیز نہیں ہے بلکہ پینے کے لئے صاف پانی تک دستیاب نہیں ہے،وہ گھاٹیوں، نہروں اور تالابوں کا پانی پینے پر مجبور ہیں جہاں جانور پانی پیتے ہیں۔ حب میں قائم پچاس بیڈ کے ہسپتال میں پیناڈول کی گولی تک دستیاب نہیں ہے اور نہ ہی کوئی دوسری سہولت موجود ہے، معمولی بیماری کے لئے کراچی کے پرایؤیٹ ہسپتالوں کا رخ کرنا پڑتا ہے۔

اسکول و کالجز میں اساتذہ و اسٹاف کی کمی اور لیبارٹریز میں پریکٹیکل کے لئے سائنسی حالات سرے سے موجود ہی نہیں، تین چار سو فنکشنل صنعتوں کے باوجود بے روزگاری کنٹرول سے باہر ہے۔ یہ صنعت کار لیبر کے لئے کراچی سے بسیں بھر بھر لاتے ہیں مقامی لوگ کو صرف ڈیلی ویجز پر اور صنعتی ٹھیکیداروں کے استحصال کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے جن سے بارہ بارہ گھنٹہ کام لے کر چند ٹکے ان کے ہاتھ میں تھما دئیے جاتے ہیں، مرتا کیا نہ کرتا کے مصدق یہ ڈیلی ویجز ملازمین بادل ناخواستہ اسے بھی غنیمت سمجھتے ہیں۔

یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے صرف یہاں پر ایک روشنی کی کرن نظر آتی ہے وہ ہیں محمد اسلم بھوتانی جو اپنی نمائندگی کا حق ادا کر رہے ہیں وہ اس وقت لسبیلہ گوادر کے ایم این اے ہیں اس سے پہلے وہ دو مرتبہ بلوچستان اسمبلی کے رکن رہے ہیں،پہلی مرتبہ ڈپٹی اسپیکر اور دوسری مرتبہ اسپیکر بلوچستان اسمبلی رہ چکے ہیں اس دوران انہوں نے اپنے عوام کی بھر پور نمائندگی کی، لسبیلہ و حب کے بڑے بڑے صنعت کاروں، سرمایہ داروں کے خلاف مقامی لوگوں کی استحصال پرکبھی خاموش نہیں رہے،ہر وقت و بر وقت ان نا انصافیوں کے خلاف سیسہ پلائی دیوار کی مانند ایک موثر آواز بن کر کھڑے رہے۔

نا انصافیوں کے خاتمے،روزگار کی فراہمی،صحت تعلیم و آبنوشی کے منصوبوں پر توجہ مرکوز کی، بحیثیت ڈپٹی اسپیکر و اسپیکر بلوچستان اسمبلی قانون سازی کے لئے ایوان کے حالات کو سازگار بنایا اور ایوان کی کارروائی کو مدبرانہ انداز میں سیاسی مصلحتوں سے بالا تر ہو کر غیر جانبداری کے ساتھ اپنے فرائض منصبی کو سر انجام دیا۔ یہیں سے ان کی قائدانہ صلاحیتوں آغاز ہوا لسبیلہ گوادر کے قومی اسمبلی کی نشست پر ان کا مقابلہ جام کمال اور اخترجان مینگل سے تھا۔

دونوں سردار زادوں کو چِت کرکے کامیابی حاصل کی،ان کا انتخابی نعرہ ساحل سالار تھا اس وقت گوادر کی ساحل بین الاقوامی سطح پر سی پیک کے حوالے سے بحث مباحثوں کا مرکز ہے چائنہ پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ پر چائنہ نے کھربوں ڈالر لگا دیئے ہیں،چائنہ سے وسط ایشیاء کی ریاستوں اور یورپی منڈیوں پر قبضے کے لئے یہی راستہ سستا آسان اور محفوظ ہے اس لئے یورپ خصوصاً امریکہ سیخ پا ہے کہ اگر چائنہ نے وسط ایشیائی ریاستوں اور یورپ میں اپنا سستا مال بھیج کر منڈیوں پر قبضہ کرلیا تو انہیں اپنی مصنوعات کے لئے متبادل منڈی کی ضرورت پڑے گی یا خود اس منصوبے میں شامل ہوکر اس میں سرمایہ کاری کریں۔دوسری صورت میں امریکہ کو یہ خوف ہے کہ اگر چائنہ نے اس خطے میں اپنے پاؤں جمائے تو انھیں سیاسی،اقتصادی اور عسکری طور پر شدید نقصان پہنچے گا۔

ذکر ہو رہا تھا محمد اسلم بھوتانی کا تو اس وقت ساحلی پٹی اور لسبیلہ گوادر کے عوام کی نمائندگی کا فریضہ انجام دینے کے لیے میدان میں ہیں قومی اسمبلی میں لسبیلہ گوادر کے عوام کی بنیادی حقوق سی پیک کے منصوبوں،ماہی گیروں کے مسائل پر قومی اسمبلی میں ہمیشہ آواز بلند کرتے رہتے۔اورماڑہ پسنی گوادر اور جیوانی کے عوام انسانی زندگی کے بنیادی حقوق سے محروم ہیں بے روزگاری عام ہے صحت تعلیم کی سہولتیں نا پید ہیں۔ ہنگول میں ایک پہاڑی چوٹی پر دیوی ہیکل بت ایستادہ ہے جسے ”امیدوں کا شہزادہ“ کہا جاتا ہے اس وقت محمد اسلم بھوتانی لسبیلہ اور گوادر کے غریب مظلوم پسے ہوئے طبقات ماہی گیروں ساحلی پٹی کے محافظ کے طور پر عوام کیلئے امیدوں کا شہزادہ بنے ہوئے ہیں جو عوام کو اس کسمپرسی کی زندگی سے نکالنے موجب ثابت ہو سکتے ہیں۔

لسبیلہ کے عوام ان کی خداداد صلاحیتوں کے پہلے سے معترف تھے مگر مختصر عرصے میں گوادر کے عوام کو بھی اپنی صلاحیتوں کا گرویدہ بنا لیا ہے۔ محمد اسلم بھوتانی اعلیٰ تعلیم یافتہ،منجھے ہوئے سیاستدان ملکی و بین الاقوامی حالات واقعات سے پوری طرح آگاہ ہیں، ایک مخلص دیانتدار،قول، وعدے اور زبان کے پکے اور ترقی پسندانہ سوچ کے عامل انسان ہیں جس طرح ڈاکٹر عبدالمالک نے اپنے قائدانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے بلوچستان کو امن کا گہوارہ بنایا، ترقیاتی منصوبوں کا آغاز کرکے بلوچستان خصوصاً اپنے حلقہ انتخاب کیچ کو جدید ترقی یافتہ شہروں میں شامل کیا، اسلم بھوتانی اپنی خداداد صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے حب و لسبیلہ اور گوادر کو عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق جدید شہری سہولیات سے آراستہ کرکے ایک مدبر جمہوریت پسند لبرل رہنما کے طور پر اپنا لوہا منوائیں گے۔

محمد اسلم بھوتانی عوامی خدمت پر بھر پور یقین رکھتے ہیں ان کا دل عوامی خدمت کے جذبے سے سرشار ہے، محمد اسلم بھوتانی کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے حلقہ انتخاب کے عوام سے رابطے میں رہتے عوام سے کبھی ڈس کنیکٹ نہیں رہتے۔ امیر غریب سب کو ایک ہی نظر سے دیکھتے ہیں،شادی غمی میں اپنی شرکت کو یقینی بناتے ہیں۔باقی سیاسی رہنماؤں کی طرح صرف الیکشن کے وقت عوام کو یاد نہیں کرتے، الیکشن ہوں یا نہ ہوں اسمبلی کا ممبر ہو یا نہ ہو عوام سے رشتہ اٹوٹ رہتا ہے۔

باقی سیاستدان صرف الیکشن اور ووٹ کے وقت عوام کو یاد کرتے ہیں لیکن محمد اسلم بھوتانی کا عوام سے رشتہ سدا بہار ہے۔حال ہی میں کورونا کی وجہ سے پورے پاکستان خصوصاً بلوچستان و لسبیلہ گوادر میں لاک ڈاؤن کیا گیا تو لسبیلہ انتظامیہ کی جانب سے مستحقین کے بجائے سیاسی بنیادوں پر راشن تقسیم کرنے کی کوشش کی گئی جس کے خلاف آواز بلند کرکے سیاسی یتیموں کے خواب چکنا چور کردئیے۔

وزیر اعلیٰ بلوچستان کی طرف سے سیاسی مخالفت انتظامی اور انتقامی کاروائیوں کے باجود بھی اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ یہ امیدوں کا شہزادہ بلوچستان کے مظلوم و محکوم عوام کے امنگوں کی ترجمانی کرتے ہوئے بلوچستان کے وائرس زدہ سیاست سے خود کو محفوظ رکھتے ہوئے عوام کی امیدوں پر پورا اترنے کی کوششوں میں کامیاب ہونگے۔