لاکھوں انسانوں کے دلوں میں بسنے والے، لاکھوں بے کس و لاچار وں کی آواز بن کر اپنوں سے دور، بے وطنی کی کرب میں مبتلا اور انکی وطن اور قوم سے محبت کی شدت کو وہی بہتر انداز میں بیان کر سکتے ہیں جو وہ موجودہ دور میں انکے شریک سفر تھے۔ ہم بس وہی لکھتے ہیں جو اس وقت سماج میں ایک قلم کار کی ذمہ داری ہے اور ان کا قلم اْن سے بھی یہی تقاضہ کرتا ہے بقول فراز “کہ ”
مرا قلم تو امانت ہے میرے لوگوں کی، مرا قلم تو عدالت مرے ضمیر کی ہے ،
اسی لیے تو جو لکھا تپاک جاں سے لکھا، جبھی تو لوچ کماں کا زبان تیر کی ہے”
یہی وجہ ہے کہ اپنے عوام کا درد رکھتے ہوئے اپنی قلم کو اپنے لوگوں کی امانت سمجھ کر سماج کی اصل برائیوں اور نابرابریوں کے خلاف آواز بلند کرنے لیے اپنوں کے سائے سے دور جا کر اپنا حق ادا کیا۔ بلا شبہ ساجد حسین اْن گنے چنے آوازوں میں سے ایک آواز تھے کہ زمیں کے درد کو اپنے اندر جگہ دیکر بے سر و سامانی کے عالم میں پراسرار طور پر اپنے حصے کی جدوجہد کر رہے تھے کہ اچانک سویڈن سے انکی لاپتہ ہونے کی خبر انکے لواحقین کو ملتی ہے، ابھی تک انکے لاپتہ ہونے کی خبر زیر گردش تھی کہ سویڈن پولیس کی جانب سے انکے خاندان کو ”بابرکت مہینے“ کی ایک شام میں انکی لاش کی اطلاع دی جاتی ہے۔
یوں تو بلوچستان میں بلوچوں کی جبری گمشدگی اور لاشوں کی برآمدگی کا سلسلہ پرانی بات ہے مگر سویڈن سے بلوچ جرنلسٹ کی لاپتہ اور مسخ شدہ لاش کا ملنا اپنی نوعیت کی ایک انوکھی بات ہے کیوں کہ آج سے پہلے ہم بھی یہی سمجھتے تھے کہ ہمارے ریجن کے علاوہ باقی مہذب دنیا میں انسانی جانوں کی قدر زیادہ ہے مگر آج ساجد حسین کے واقعے سے ہمارے علم میں یہ بھی اضافہ ہوا کہ حق و سچائی کی راہ پر چلنے والوں کے خلاف پوری دنیا ایک ہی صف پر ہے۔ اب ہمیں یہ ذہین نشین کرنا ہوگا کہ تنگ ہے یہ دنیا اْن کے لیے جو دنیا بھر میں بے آوازوں کے لیے سچ بولتے اور لکھتے ہیں۔
یہ واقع نا صرف بلو چستان سے تعلق رکھنے والی صحافتی برادری کے لیے ایک پیغام ہے بلکہ یہ پوری دنیا جو اس وقت انسانی ہمدردی کی بنیاد پر پناہ گزینوں کو تحفظ دینے کے لیے کام کر رہی ہے انکے لیے بھی ایک خاموش پیغام ہے۔ اور اْن کے لیے بھی جو اپنے ملک میں اپنی جان کو غیر محفوظ سمجھتے ہوئے باہر ممالک کی طرف رْخ کئے ہوئے ہیں چائے انکا تعلق کسی بھی ملک رنگ نسل سے ہو وہ بھی اپنے محافظوں کے رحم و کرم پہ نہ بیٹھیں بلکہ اپنی جان و مال کی حفاظت خود کریں۔ اگر اظہار آزادی رائے کے لیے جدوجہد کرنے والوں کے لیے صحافتی برادری کیساتھ یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کے لیے بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔
وہ بھی اسطرح کے حالات و وقعات سے اس بنیاد پر چشم پوشی اختیار نہ کریں کہ ساجد محض ایک بلوچ جرنلسٹ تھے کیونکہ ساجد سے پہلے جمال خشو خجی اور سکے بعد کون ہوگا اس بارے میں کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ ہم اس مصیبت کے وقت میں بس ساجد جان کے لوحقین اور انکی جدائی پہ غم زدہ انکے ساتھیوں سے ہمدردی ہی کرسکتے ہیں اور رب عالم سے دعا کرتے ہیں ہم سب کو اپنے حفظ وامان میں رکھے۔