|

وقتِ اشاعت :   May 4 – 2020

یہ سنہء 1963 کی بات ہے کہ جب اس نے بلوچستان کے ضلع جعفر آباد کے محلہ ابڑہ کالونی کے ایک غریب گھرانے میں آنکھ کھولی بچپن میں اسے معلوم نہیں تھا کہ زندگی جس افلاس کی پٹڑی پر چلنے والی ہے وہ کس قدر مشکل ہوگی۔اس کے سفید بال بڑھاپے کا ثبوت تھے جو کہ موتیوں کی طرح چمک رہے تھے غربت نے اسکے چہرے پر پڑی جھریوں کو مذید واضع کر رکھا تھا اور اسکی آواز میں ایک صدا تھی جس جسکا پس منظر نصف صدی سے زائد پہ محیط تھا۔اماں لال خاتون 9 سال پہلے بیوہ ہوگئی تھی انکا کنبہ 5 بیٹوں اور 2 بیٹوں پرمشتمل ہے۔

اور اسکے دونوں بیٹے شادی شدہ ہے جو کہ ایک ہی گھر میں رہتے ہے کل ملا کر انکے مشترکہ خاندان کی تعداد 21 بنتی ہے۔ 57 سال کی عمر میں اماں لال خاتون لوگوں گھروں کے برتن مانجھ کر اپنا اور خاندان کا پیٹ پال رہی ہے اور اب وہ کوئٹہ کے علاقے کلی اسماعیل میں رہتی ہے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے اماں لال خاتون کو تین ماہ بعدپانچہزار روپے ملتے ہے انہوں نے بتایا کہ” یہ رقم مجھے 2010 سے ملتی آرہی کہ جس وقت بلوچستان میں سیلاب آیا تھا لیکن یہ رقم اتنی کم ہے کہ اس سے آج کے دور میں گزارہ کرنا مشکل ہے” پاورٹی سکور کارڈ سروے کے مطابق بلوچستان میں بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے لئے اہل افراد کی تعدا 450000 ہے جن میں سے صرف 240000 افراد کو امدادی رقم مل رہی ہے جبکہ اب بھی210000 مستحقین رقم سے محروم ہیں۔

پاورٹی سکور کارڈ سروے 2009-2010 میں مکمل کیا گیا ہے۔ اس وقت بلوچستان کی کل آبادی 1998 کی مردم شماری کے مطابق ادارہ شماریات نے 6,565,885 ظاہر کی تھی۔ جو 2017 میں کی جانے والی مردم شماری کے مطابق 12,344,408 ہے جس سے ظاہر ہے کہ بلوچستان میں آبادی بڑھ گئی ہے اور مستحقین کی تعداد میں مذید اضافہ ہوچکا ہے جو کہ تاحال بینظیر انکم سپورٹ پروگرام میں شامل نہیں کئے گئے جبکہ درج بالا معلومات پر غور کیا جائے اور 2017 کی مردم شماری کے مطابق بلوچستان میں مستحقین کی تعداد 9 لاکھ تک بنتی ہے۔

مذید اگر معاشی بدحالی کو ازسر نو پاورٹی سکور کارڈ کے مطابق ماپا جائے تو یہ تعداد اس سے بھی تجاوز کر سکتی ہے۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ایک اعلی عہدیدار نے بتایا گزشتہ سال اس پروگرام کے لئے ایک سو چودہ ارب روپے مختص کئے گئے تھے رقم شفاف طریقے سے مسحقین تک منتقلی کو یقینی بنانے کے لئے بائیومیٹرک طریقہ کار کا آغاز کیا گیا ہے جس سے تمام رقم مستحقین تک شفاف طریقہ سے پہنچائی جا رہی ہے۔انہوں نے پروگرام کی خامیوں کا زکر کرتے ہوئے بتایا اس پروگرام کو شروع کرتے وقت مناسب اور سروے کرنے کی بنا پر اندرون بلوچستان میں بعض مستحق افراد پروگرام کی رقوم سے محروم رہ گئے ہیں۔

جس وقت سروے کیا گیا اس وقت بلوچستان کے حالات خراب تھے جسکی وجہ سے بلوچی اضلاع کے علاقے اس پروگرام سے محروم رہ گئے تاہم پشتون اضلاع میں پروگرام سے مستفید افراد کی تعداد بلوچ اضلاع کی نسبت زیادہ ہے انہوں نے کہا کہ دوبارہ سروے کیا جائیتا کہ پروگرام کی رقم مذید محروم مستحقین تک پہنچائی جا سکے “یہ گفتگو انہوں نے نام نہ ظاھر کرنے کی شرط پہ کی ” تاہم پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی کے رہنماء اور رکن بلوچستان اسمبلی نصراللہ زیرے نے بتایا کہ پشتون اضلاع میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے مستفید افراد کی تعداد بہت کم ہے۔

کیونکہ ” سروے کے وقت پیپلز پارٹی کی حکومت تھی جسکے ارکان اسمبلی نے اپنے کارکنوں کو نواز جسکی وجہ سے پشتون اضلاع کے مستحقین محروم رہ ہیں ” انہوں نے مذید بتایا کہ ڈیڈھ لاکھ پشتونوں کے قومی شناختی کارڑز بلاک ہیں جسکی وجہ سے مستحق پشتونوں کی ایک بڑی تعداد اس پروگرام سے محروم رہ گئی ہے انہیں نے مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ فل فور از سر نو نظر انداز کئے جانے والے اضلاع کے افراد کا نام اس پروگرام میں شامل کیا جائے۔

پشتون آبادی پر مشتمل ضلع پشین میں آذاد زرائع سے اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ آج بھی کئی ایسے مستحق افراد موجود ہیں جو کہ اس پروگرام سے محروم رہ گئے ہیں۔ نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ایک شخص نے بتایا ان کے گھر کی ایک خاتون نے مسلسل تین ماہ مصروفیات کی بنیاد پر پروگرام کی امدادی رقم وصول نہیں کی جسکی بنیاد پر اسے مردہ قرار دے کر پروگرام سے نام خارج کردیا تھا انہوں نے مذید بتایا کہ مردہ قرار دینے سے ہمارے قومی شناختی کارڈ بلاک ہونیکا خطرہ تھا جس کے پیش نظر میں نے متعلقہ آفیسر کو درخواست دی کہ کہ” ہمارے گھر کی خاتون ذندہ ہے۔

آپ انکا نام مستحقین کی لسٹ سے نکال لیں لیکن مردہ قرار دینے سے ہمارے گھرانے کے قومی شناختی کارڑ بلاک ہو سکتے ہیں تاہم انہوں نے خاتون کا نام مستحقین کی لسٹ سے نکال دیا ” تاہم جب یہی سوال بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے عہدے دار سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ ” اگر کوئی مستحق خاتون مسلسل چھ ماہ تک امدادی رقم وصول نہیں کرتی تو مزکورہ خاتون کو مردہ کرار دے کر نام ڈی کریڈٹ کر لیا جاتا ہے جس کے بعد مزکورہ خاتون کو رقم کی فراہمی معطل ہوجاتی ہے ” انہوں نے مذید بتایا اگر کسی خاتون کو مردہ سمجھ کر نام ڈی کریڈٹ کرلیا جائے اورخاتون ذندہ ہو تو ایسی صورتحال میں مزکورہ خاتون دوبارہ کریڈٹ حاصل کرنے کیلئے اور پنا نام لسٹ میں بحال کرنیکے لئے درخواست دے سکتی ہیجسکا کا اپنا ایک طریقہ کا ر ہے۔

بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تیسویں بورڈ میٹنگ جس کی صدارت پروگرام کی سربراہ ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے کی جس کے تحت فیصلہ کی گیا ہے کہ اگر کوئی مسلسل چھ مہینوں تک بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت رقوم وصول نہیں کرتے تو ایسے تمام افراد کے کاونٹ منجمند کر کے انہیں ڈی کریڈٹ کیا جائے گا مذید مشکوک شناختی کارڈ کے حامل افراد کو بھی ڈی کریڈٹ کرکے رقم کی فراہمی معطل کی جائے گی جبکہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی پالیسی کیتحت وضاحت نہیں کی گئی کہ اگر کوئی مستحق نجی مصروفیات کی بنیاد پر رقم وصول نہیں کرتا تو کیا انہیں بھی مردہ تصور کر کے نام ڈی کریڈٹ کیا جائے گا۔

بینظیر انکم سپورٹ پروگرام قومی شناختی کارڈ جاری کرنے والے ادارے نادرا کے ساتھ ایک کوآرڈینیشن کے تحت پروگرام چلا رہے ہیں تاہم اگر کسی مستحق خاتون کو مردہ کرار دے کر ڈی کریڈٹ کیا جاتا ہیتو اس صورت میں مزکورہ خاتون کا قومی شناختی کارڑ بلاک ہونے کا اندیشہ ہے تاہم جب اسی سلسلے میں بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کوئٹہ کے دفتر پر بارہا رابطہ کرنے باوجود تاحال کوئی جواب سامنے نہیں آیا۔ واضح رہے کہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت گذشتہ سال کے آخر میں پہلے سے مستحق آٹھ لاکھ افراد کیاکاؤنٹس کو منجمد کردیا گیاہے جو کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی جانب سے نئی وضع کردہ پالیسی کے تحت اہل نہیں ہیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے صوبائی صدر علی مدد جتک کا کہنا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے پاس عوام کو دینے کیلئے کچھ نہیں البتہ پاکستان پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں جو مستحقین بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت مستفید ہورہے تھے انہیں بھی سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نہ صرف عالمی سطح کے اسٹینڈر کے مطابق چلنے والے اس پروگرام کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنا رہی ہے بلکہ ہمارے صوبے کے غریب افراد کو بھی سیاسی انتقام کا سامنا ہے سندھ سے تعلق رکھنے والے مسلم لیگ(ن) کے رکن قومی اسمبلی خیال کوہستانی نے بتایا کہ یہ پاکستان پیپلز پارٹی کا منصوبہ ہے۔

تاہم ان پر یہ تنقید بھی ہوتی ہیکہ کی پی پی پی نے ووٹ کی خاطر اپنے جیالوں کو نوازا ہے اٹھارویں ترمیم کے بعد ہر آنی والی حکومت پہلے سے جاری منصوبوں کو جاری رکھے گی ” انہوں مذید بتایا پاکستان پیپلز پارٹی انکی سیاسی حریف ضرور ہے لیکن پروگرام کا نام بدلنے کی وہ مخالفت کرتے تاہم موجودہ حکمران جماعت ٹائیگر فورس کے نام پر اپنے سلوگن کو استعمال کر رہی ہے۔

نواز شریف نے ہمیشہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا نام بدلنے کی مخالفت کی تاہم اس وقت پارٹی کے اندر ایسے رہنماء بھی موجود تھے جنہوں نے نام نہ بدلنے سے اختلاف رکھا جب 2018 کا الیکشن ہوا تو وہی ارکان پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہوگئے اور اب وہ اس پروگر کا نام بدلنیکی کوشش کر رہے ہے نام بدلنے سے اچھا پیغام نہیں جائے گا۔ خیال کوہستانی کے مطابق ” ہماری حکومت نے کمپیوٹرائز سروے کر کے طریقہ کار کو تبدیل کرتے ہوئے مذید افراد کو پروگرام میں شامل کیا اور اس کے ساتھ ساتھ معاوضہ بھی بڑھایا ” خواتین کے حقوق پہ کام کرنے والی سماجی کارکن صائمہ جاوید کہتی ہے کہ ” کہ اس پروگرام کا ڈیزائن بہت خوبصورت ہے۔

لیکن جو سروے کیا گیا تھا اس کے مطابق بعض مستحق خواتین اس پروگرام مستفید نہیں ہورہی اور پروگرام کا ٹارگٹ شادی شدہ خواتین ہے جسکی وجہ سے ایک بہت بڑے آبادی ان خواتین کی بھی ہے جو کہ غیر شادی شدہ ہونے کے باعث پروگرام سے امدادی رقم وصول نہیں کر پارہی جنکا ملکی ترقی میں اہم کردار ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ غیر شادی شدہ خواتین سمیت تیسرے جنس کے افراد کو بھی شامل کیا جائے۔ عورت فاونڈیشن 2012 سے لیکر 2016 بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ساتھ خوشحالی سروے، وسیلہ تعلیم میں بطور پارٹنر کام کرتی رہی۔

عورت فاؤنڈیشن بلوچستان کے سربراہ علاودین کہتے ہے کہ” وسیلہ پروگرام کے تحت ہم نے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے مستفید ہونے والی خواتین کے 4 سے 16 سال تک کے بچوں کو اسکولوں میں داخل کرایا گیا ی جو اس سے پہلے اسکول نہیں جا پا ہے تھے انہوں نے مذید بتایا ہم نے صوبے کے چار اضلاع جھل مگسی، نوشکی، لورالائی اور بارکھان میں چار سال تک کام کرتے ہوئے بچوں کو اسکولوں میں داخل کروایا۔ ثابق صوبائی وزیر اور پاکستان پیپلز پارٹی بلوچستان کے سربراہ علی مدد جتک بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کو غریب اور بیواوں کے لئے انتہائی اہم کرار دیتے ہوئے کہتے ہے کہ اس وباء کے دنوں میں پروگرام کی اہمیت مذید زیادہ ہوگئی ہے بھٹوں خاندان کی خدمات ہیں جبکہ حکومت بی بی کے نام سے زاتیات کی بنیاد اس پروگرام کو ختم کرنا چاہ رہی ہے۔

اگر حکومت اس پر ایسا کرے گی تو ہم اسکی مخالفت سمیت مزاحمت بھی کریں گے۔ پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات احمد جواد نے بتایا کہ حکومت کی جانب سے جب بھی کسی بھی امداد پروگرام کا آغاز کیا جاتا ہے تو وہ عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے ہی کیا جاتا ہے تاہم “پروگرام کو کسی کے زات کے ساتھ کے ساتھ منسلک کرنا غلط بات ہے۔

عمران خان نے زاتی فنڈ سے شوکت خانم بنایا اور بلاول اور زرداری کو بھی چاہئے کہ وہ اپنے زاتی فنڈ سے بے نظیر کے نام سے پروگرام چلائے ” انہوں نے مذید بتایا کہ ” کہ اس پروگرام سے 21 اور 20 گریڈ کے آفیسرز پیسے وصول کرتے رہے میرا خیال ہے کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرا کو ختم ہونا چاہئے کیونکہ اس کی رقم غیر مستحق افراد کو جاتی رہی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی سینٹرل مرکزی اطلاعات نفیسہ شاہ کو جب خبر سے متعلق سوالات بھیجے گئے تو انہوں نے جواب دینے کا وعدہ کیا تاہم ہفتہ سے زائد گزرنے کے بعد بار بار یاد دہانی کے باوجود خبر کے شائع ہونے تک انکا کوئی موقف سامنے نہیں آیا