حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے بازار میں ایک بوڑھا شخص دیکھا جو لوگوں سے بھیک مانگ رہا تھا۔ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بوڑھے سے کہا کیا آپ کو بیت المال سے وظیفہ نہیں ملتا؟اس نے کہا کہ مجھے وظیفہ مل رہا ہے لیکن میں یہودی ذمی ہو ں حکومت مجھ سے سالانہ جذیہ لے رہی ہے میں کمزور ہو ں مزدوری نہیں کرسکتا تو اس کی ادائیگی کے لئے سال میں ایک دفعہ لوگ سے مانگ کر حکومت کو جمع کرتا ہوں۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اس شخص سے کہا کہ سوال نہ کرو کل میر ے پاس آجاؤ۔
کل جب وہ دربار میں پیش ہوا تو مجلس شوریٰ نے قانون بنادیا کہ آج کے بعد بوڑھے ذمیوں سے جذیہ معاف ہوگا۔ ہماری حکومت نے عوام پر باری باری ٹیکس عائد کیا ہے۔ جو اس کی وجہ سے لوگ روز بروز اپنے کاروبار چھوڑ رہے ہیں۔ ساری دنیا کے غریب ممالک میں عوام بہت غربت سے زندگی بسر کر رہے۔ بہت سے ایسے لوگ روئے زمین پر موجود ہیں جن کو ایک وقت کا کھانا بھی نہیں ملتا۔ افریقہ اور جنوبی ایشیاء کے بعض ممالک جیسے انڈیا، بنگلادیش، پاکستان اور افغانستان میں بہت عوام کی بڑی تعداد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔
پاکستان میں خاص کر پنجاب اور سندھ کی دیہاتوں میں بچے بھوک وافلاس کی وجہ سے مر رہے ہیں۔ کتنے بچے،خواتین اور مرد دو وقت کھانے کے خاطر غلامی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ روز روز کے واقعات سن کرآپ کی پریشانی بڑھ جائیگی۔ اس ملک میں کتنے بچے اور والدین کی خواہش اور تمنا اچھی تعلیم ہوتی ہے۔ اس سے وہ محروم، کتنے بچے یتیم ہیں، کتنے زن بیوا ہوچکی ہیں۔ان کی حالت پوچھنے والاکوئی نہیں۔ کتنے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں شادی کی تمنا میں بوڑھے ہوگئے۔
آج ملک میں جو بے قراری، ظلم وستم، دہشت گردی، قتل وغارت،دھوکہ بازی اور چوری ڈکیتی ہے یہ سب غربت کی پیداور ہیں۔جن ممالک میں جرائم کی شرح کم ہے تو وہاں غربت نہیں۔
ریاست کی ذمہ داری ہے کہ تمام شہریوں کو تعلیم،صحت اور روزگار مہیا کرے۔
ہمارے ملک کو آزادہوئے 73 سال ہوگئے ہیں لیکن ہم روز بروز غربت کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ہر نئی حکومت جب آتی ہے تو وہ غربت کے خاتمے کی اعلانات کرتی ہے لیکن حقیقت میں وہ اپنے اعلانات کے برعکس چلتی ہے۔ کوئی بینظیر انکم سپورٹ اور کوئی احساس پروگرام پیش کرتی ہے۔ کیا ایسے پروگرامات سے غربت کا خاتمہ ممکن ہے؟ اگر ایسا ممکن نہیں تو کیا صورت ہے جس سے غربت کا خاتمہ ہوجائے۔ یورپ پر پندرہ سو سال جاگیردارنہ نظام مسلط رہا۔اس نظام میں زمین جاگیردار کا اورمحنت مشقت زمیندار کر تا تھا اس کی آمدنی تین حصوں میں بانٹا جاتا تھا۔
ایک حصہ جاگیر دار دوسرا حصہ کلیسا اور تیسرا حصہ کاشتکارکا تھا اس نظام میں ساری محنت ومشقت کاشتکار کرتا تھا لیکن اس کو بہت کم حصہ ملتا تھا۔ اس کے رد میں سرمایہ دارانہ نظام آگیا۔ سرمایہ دارانہ نظام نے ہر چیز رسد وطلب کے قانون میں ڈال دیا۔ جس چیز کی رسد زیادہ ہو اور طلب کم ہو توہ چیز خود بخود سستا دام فروخت ہوگی اگر برعکس ہو تو مہنگی ہوگی۔ تو یہ معیار انہوں نے مزدور کیلئے بھی مقرر کیا تھا اگر کوئی کام کیلئے مزدور کی ضرورت ہو تو اگر آپ کو زیادہ مزدور ملتے ہیں تو اس کا یومیہ اجرت کم دے دو۔ تو اس نظام میں مزدوروں کا بہت استحصال ہوا اس وجہ سے لوگ اس سے تنگ آگئے۔
سرمایہ دارانہ نظام کے مقابلے میں سوشلزم نظام معرض وجود میں آیا۔ انہوں نے معاشی مساوات کا نعرہ لگا دیا تو بہت لوگ جو سرمایہ دارانہ نظام سے تنگ آچکے تھے اس نعرے کی وجہ سے ان کی طرف چلے گئے۔لیکن اس میں بھی بہت سی قباحتیں تھیں اس وجہ سے لوگوں نے وہ بھی پسند نہیں کیا۔یورپ،امریکہ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک نے اسلامی اصول اپناتے ہوئے غربت سے نجات حاصل کی۔ جیسے برطانیہ میں عمر کیLaw موجودہے اس سے مطلب وہ قوانین ہیں جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت میں بنائے تھے۔
افسوس یہ ہے کہ مسلمان غیر مسلم کے بنائے ہوئے فرسودہ نظام اپناتے ہیں اس نظام میں حرص، لالچ،دھوکہ اور سود شامل ہیں جو اس میں کبھی کامیابی نہیں ہے۔ اسلامی نظام معیشت میں غربت کا خاتمہ موجود ہے یہ نظام افراط تفریط سے بالکل شفاف ہے اس میں انسان کا استحصال نہیں نہ اس میں غلامیت کا تصور ہے۔ سب افراد کے لئے موزوں نظام ہے۔سب سے پہلی فلاحی ریاست حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں قائم کی تھی۔ اس ریاست میں بیت المال بن گیا باقاعدہ اس سے غربا کو کھانے پینے حتی سفر کے لئے سواری بھی مہیا کی جاتی تھی۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں غریبوں کے لئے بہت قانون سازی کی تھی۔ ہر بچے کی پیدائش پر ان کے لئے بیت المال سے وظیفہ مقرر ہو تا تھا۔حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ سنہ 99 سے 101 ہجری تک خلیفہ تھا اس کا دارلخلافہ دمشق تھا۔ اس نے بہت انصاف سے حکومت کی تھی۔ ان کے عراق کا گورنر عبدالحمید تھا۔ کتاب الاموال میں گورنر عراق عبد الحمید کے چار خطوط کاذکر موجود ہے۔ جو عمر بن عبدالعزیز کو لکھے گئے ہیں۔پہلے خط میں گورنر نے لکھا کہ میرے صوبے کاریونیو بجٹ سے زیادہ ہے میرے ساتھ کافی بچت ہے میں اس کے ساتھ کیا کروں۔
خلیفہ نے جواب لکھا کہ آپ تمام غرباء کا سروے کرو اس میں جتنے قرض دار لوگ ہیں ان کے قرضے اس سے ادا کرو۔پھر گورنر نے دوسراخط لکھا کہ سارے قرض دار لوگوں کا قرض ادا کیا پھر بھی میرے ساتھ بچت زیادہ موجود ہے۔ خلیفہ نے جواب دیا کہ آپ سروے کرو جتنے غریب غیر شادی شدہ لڑکے اور لڑکیاں ہیں ان کی شادیاں اس سے کرو۔تیسرا خط گورنر نے خلیفہ کو روانہ کیا۔ نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کی شادیاں کرا دیں۔پھر بھی بچت میرے ساتھ رہ گیا۔ تو خلیفہ نے جواب لکھا کہ وہ شادی شادہ مرد جو اپنی بیویوں کے مہر ادا نہیں کرسکتے اس سے ان خواتین کی مہر بھی ادا کرو۔چوتھا خط لکھا کہ خواتین کو مہر بھی ادا کردی۔ تو خلیفہ نے جواب دیا کہ غیر آباد زمین کا سروے کرکے زمینداروں کو آسان اقساط پر قرض دو تاکہ اس سے زمین آباد کی جائے۔