کیاکوئی ایسی حکومتی کسوٹی،کوئی ایساپیمانہ یاکوئی ایساسافٹ وئیرہے جوان سفید پوش محنت کشوں اورمزدوروں کے دلوں پر بھوک کی لکھی ہوئی تحریریں پڑھ سکیں،ان کے بارے میں سوچ سکیں انسان خطرناک اورجدیدترین توپ و اسلحہ سے لیس تربیت یافتہ دشمنوں کی افواج کے حملے کی پیش بندی کرسکتاہے اور اس کے سامنے کھڑے ہوکرڈٹ کرمردانہ واراسکامقابلہ کر سکتا ہے لیکن ناگہانی آفات اوراچانک پھیلنے والے وبائی امراض کامقابلہ کرناآسان کام نہیں ہوتا،اس کی واضح مثال یورپ میں تیرہویں صدی میں پھیلنے والی طاعون کی وباء ہے جس نے اندازاََ 75 سے 200ملین لوگوں کو موت کے گھاٹ اتاردیا تھا۔
جسے بلیک ڈیتھ کے نام سے بھی یادکیاجاتا ہے۔ہر آنے والے نئے برس کوخوش آمدیدکہنے کے لیے دنیابھرمیں رنگارنگ پروگرام سجائے جاتے ہیں اوران کی تیاریاں دسمبرکے آخری ہفتوں میں شروع ہوجاتی ہیں، لیکن اس برس فلک نے کچھ اور ہی سوچاہوا تھا،31 دسمبر 2019 کو فلک سے فیصلہ ہوتا ہے، کیسا فیصلہ؟ ہاں انسانیت کے استقبال کا فیصلہ ایک قہرکی صورت میں۔ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن چین کے کنٹری آفس کو چینی حکام نے ایک نئی قسم کے کورونا وائرس”نوول کورونا وائرس” کی نشاندہی کی، اور پھر”چشم خلق”نے دیکھا کہ آن کی آن میں دنیا کادستور ہی بدلتاچلا گیا۔
چین کے شہر ووہان سے شروع ہونے والی یہ وباء ایک عالمی وباء کی صورت اختیار کرگئی، ایک ایک کر کے دنیا بھر کے ممالک لاک ڈاؤن میں چلے گئے، نہ کوئی سپر پاور رہی نہ کوئی تھرڈ ورلڈ، کورونا نے امیر غریب، بچے بوڑھے، مرد عورت، بزنس مین و دیہاڑی دار، شہنشاہ و پرجا، فنکار و مداح، وزیر و مشیر، ارب پتی و سڑک چھاپ سب کو ایک ہی صف میں کھڑا کر دیا،ہاں یہ ہوا کہ کم از کم کورونا نے سب کے ساتھ یہ انصاف کیا کہ اس نے سپر پاورز کہلانے والوں اور خط غربت سے بھی نچلے درجے میں رہنے والی اقوام میں کوئی فرق روا نہیں رکھا شاید خدا کے ہونے کا یقین دلانا مطلوب تھا۔
لاک ڈاؤن کی الٹی گنتی حکومتی خودمختاراور ماتحت اداروں، تمام صنعتی، تجارتی اور پرائیویٹ اداروں، تمام پبلک ٹرانسپورٹ، ریل گاڑیوں، بسوں، میٹرو، ہوائی پروازوں، تعلیمی اداروں، ٹریننگ،ریسرچ اور کوچنگ سنٹرز، ہوٹل، شاپنگ مالز، ریستوران، جم، کلبوں، ورکشاپس، گودام، ہفتہ وار بازاروں، تمام سیاسی، سماجی، کھیل، تفریح، اکادمک، ثقافتی، مذہبی تقاریب و جلسوں، تمام مذہبی مقامات، مذہبی عمارات کی بندش، چرچ، کلیسا اورمساجد میں اجتماعی عبادات پر روک، یہاں تک کہ آخری مذہبی رسومات کی ادائیگی میں بھی قلیل لوگوں کی شرکت کی شرط پر منتج ہوئی۔
عالمی معیشت کو شدید ترین دھچکا لگا اور دنیا کی تاریخ میں پہلی بار تیل جسے بلیک گولڈ بھی کہا جاتا ہے کی قیمت منفی سطح تک گر گئی، آسٹریلین نیشنل یونیورسٹی اور کنگز کالج لندن کی ایک تحقیق کے مطابق کورونا وائرس کی وجہ سے پیدا ہونے والی اس شدید ترین معاشی زبوں حالی کے اثرات عالمی غربت میں تقریباََ نصف ارب تک کا اضافہ کر سکتے ہیں اور اس وائرس کی وجہ سے پیدا ہونے والے سنگین حالات کے سبب پیداہونے والامعاشی بحران طبی بحران سے کہیں زیادہ شدیدہوگاجو عالمی سطح پر غربت کے اضافے کا سبب بنے گا، پاکستان میں ایک کروڑ سے زائد افراد کے بے روزگار ہونے کا خدشہ ہے، جبکہ سپر پاور امریکہ میں گزشتہ چھ ہفتوں میں تقریباََ 3 کروڑ افراد بے روزگار ہوگئے ہیں۔
عالمی سطح پر کورونا وائرس کی وجہ سے پیدا ہونے والے بے روزگاروں کی امداد کی جا رہی ہے اور اس بے روزگاری میں صف اول پر بے چارے مظلوم مزدور کھڑے ہیں، دنیا کے ارب پتی، خیراتی تنظیمیں اور مخیر لوگ بھی بڑھ چڑھ کر غریبوں کی مدد کرنے کی حتی الامکان کوششوں میں مصروف ہیں، پاکستان میں بھی غریبوں اور بے روزگار ہونے والے مزدوروں کی مدد کے لیے حکومت پاکستان نے احساس کفالت پروگرام اورپہلے سے جاری بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے بلاشبہ احسن اقدام اٹھایا ہے، لیکن اس کا فائدہ کس حد تک پہنچا ہے یہ ایک سوالیہ نشان ہے، وہ سفید پوش مزدور لوگ جو کسی سے مانگتے نہیں کیا ان تک کوئی بھی امداد پہنچ سکی ہے؟
بقول شاعر
مجھے کہیں کا نہ رکھا سفید پوشی نے
میں گرد گرد اٹھا تھا تو معتبر بھی تھا
سفید پوش کون ہیں، سورۃ البقرہ میں اللہ تعالیٰ ان کے بارے میں فرماتے ہیں ” (مالی امداد کے بطور خاص) مستحق وہ تنگ دست فقراء ہیں جو اللہ کے کام میں ایسے گھر گئے ہیں کہ اپنی ذاتی کسب معاش کے لیے زمین میں کوئی دوڑ دھوپ نہیں کر سکتے، ان کی خود داری دیکھ کر ناواقف آدمی گمان کرتا ہے کہ یہ خوش حال ہیں، تم ان کے چہروں سے ان کی اندرونی حالت پہچان سکتے ہو،مگر وہ لوگوں سے لپٹ کر سوال نہیں کرتے، اور تم جو مال بھی خرچ کرتے ہو اللہ اسے خوب جانتا ہے۔(البقرہ 273)۔
کورونا کی عالمی وباء کی وجہ سے سفید پوش محنت کش مزدور طبقے کی تعداد میں لاکھوں کا اضافہ ہوا ہے۔
لیکن ان کی سفید پوشی نے انہیں پہروں بھوکے رہنے پر مجبور کردیا، ہزار داستانیں ہیں، کمزور دل لوگوں میں بھوک سے مجبور ہو کر خودکشی،اپنے ہی بچوں کا قتل یا اپنے ہی خاندان کو بھوک سے سسکتے بلکتے دیکھتے رہنا لیکن کسی کے آگے دست سوال دراز نہ کرنا،زندگی اب اس قدر سفاک ہوجائے گی کیا،بھوک ہی مزدور کی خوراک ہوجائے گی کیا،کیا کوئی ایسی حکومتی کسوٹی، کوئی ایسا پیمانہ یا کوئی ایسا سافٹ وئیرہے جو ان سفید پوش محنت کشوں اور مزدوروں کے دلوں پر بھوک کی لکھی تحریروں کوپڑھ سکے،ان کے بارے میں سوچ سکے، ان کے بھوک سے بلکتے بچوں، ان کی بیٹیوں کی بے چارگی سے نکلتی دبی دبی آہوں اور سسکیوں کو جنہیں وہ دروازے کے کواڑوں کے پیچھے چھپ کر اپنے دوسرے بہن بھائیوں سے چھپانے کی ناکام کوشش کرتی ہیں۔
کو سن سکے اوران کی بھوک کا مداوا کر سکے؟ ہاں یہ بات بھی یاد رہے کہ بھوک تہذیب کا فرق مٹا دیتی ہے، دنیا بھر میں پیدا ہونے والی بے روزگاری کی وجہ سے چوری چکاری، ڈاکہ اور راہزنی کی وارداتوں میں ریکارڈ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، مجھے آج اوپندر ناتھ اشک کی بات یاد آرہی ہے، دربار لگا ہوا تھا۔ راجہ بکرما جیت اپنے سونے کے سنگھاسن پر جلوہ افروز تھے۔ سب طرف خاموشی طاری تھی۔ سب راجہ کی جنبش لب کے منتظر تھے۔ ”بدامنی کی آماجگاہ کہاں ہے؟” راجہ نے پوچھا۔ کچھ لمحوں کے لئے سارے دربار میں خاموشی چھا گئی۔ ”جہاں عاقلوں کی قدر نہیں ہوتی۔” یہ کالی داس تھے۔
اجّین کے مشہور شاعر! راجہ نے انہیں اپنے پاس بٹھا لیا لیکن پھر پوچھا۔۔۔ ”اور”؟ ”جہاں عورتوں پر ظلم ہوتے ہوں۔”، ”جہاں مذہب کے نام پر انسانوں کا خون بہایا جاتا ہو۔”، ”جہاں قحط پڑتے ہوں ”، ”جہاں رعایا ان پڑھ ہو”، ”جہاں لوگ عیش پسند ہوں ”، ”جہاں راجہ ظالم ہو”، ”جہاں رعایا کے کسی حصہ کو اچھوت خیال کیا جائے” آٹھ عالم چنے جا چکے تھے، لیکن راجہ کی تسلی نہیں ہوئی، اس نے کہا۔ بدامنی کا سب سے بڑا سبب کیا ہے؟
”مفلسی” بھیڑ میں سے کسی نے کہا ”جہاں مفلسوں کا کوئی پرسان نہ ہو۔ اور مزدوروں کو پیٹ بھر کر روٹی نہ ملے وہیں بدامنی پھلتی پھولتی ہے۔” سب کی نگاہیں اس طرف اٹھ گئیں۔ وہ شخص آگے بڑھ آیا۔ اس کی حالت نہایت ردّی تھی۔ کپڑے خستہ اور بوسیدہ تھے۔ سر اور پاؤں ننگے تھے۔ لیکن گڑھوں میں دھنسی ہوئی آنکھوں میں اب بھی چمک باتی تھی جو دیکھنے والوں کو مرعوب کر دیتی تھی۔ اور یہ بات سن کر راجہ بکرما جیت اپنے سونے کے تخت سے نیچے اتر آیا۔
ہر اک اپنا جنازہ ڈھو رہا ہے
سبھی مزدور ہوتے جارہے ہیں