جب کوئی اْستاد نہ بنناچاہے وہاں بظاہر پڑھے لکھے لیکن حقیقتاً جاہل راج کرتے ہیں۔
“ساٹھ کی دہائی میں ایوب خان ملکہ برطانیہ اور ان کے شوہر کو پاکستان دورے کے دوران برن ہال سکول ایبٹ آباد لے گئے۔ ملکہ تو ایوب خان کے ساتھ بچّوں سے ہاتھ ملاتی آگے بڑھ گئیں، اْن کے شوہر بچّوں سے باتیں کرنے لگے، پْوچھا کہ بڑے ہو کے کیا بننا ہے؟ بچّوں نے کہا ڈاکٹر، انجنیئر، آرمی آفیسر، پائلٹ، وغیرہ وغیرہ۔وہ کچھ خاموش ہو گئے پھرلنچ پر ایوب خان سے کہا کہ آپ کو اپنے ملک کے مستقبل کا کچھ سوچنا چاہیے، میں نے بیس بچّوں سے بات کی۔ کسی نے یہ نہیں کہا کہ اسے ٹیچر بننا ہے اور یہ بہت خطرناک ہے… ایوب خان صرف مسکرا دئیے کچھ جواب نہ دے سکے اور یہ ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے۔
آج تہذیب و تمدن کی یہ جو اتنی بڑی عمارت کھڑی ہے۔ اس کے پیچھے اسی شفیق و محترم ہستی کا ہاتھ ہے جسے اتالیق یا استاد کہتے ہیں۔ دنیا کے بڑے بڑے بادشاہ، جن کی گردن ہمہ وقت اکڑی رہتی تھی، اپنے اساتذہ کے سامنے ہمیشہ سر جھکا دیا کرتے تھے ”سکندرِ اعظم“ یونانی جس نے آدھی سے زیادہ دنیا اپنی تلوار کی دھار پر فتح کی، ”ارسطو“جیسے معلم اول کا شاگرد تھا۔یہ مجلسِ یونان ہو، یا ایوانِ قیصرو کسریٰ، یہ خلافتِ بنو عباس ہو یا محمود غزنوی کا دربار، یہ اندلس کا الحمراء ہو یا ہندوستان کا شہنشاہ ”جلال الدین محمد اکبر”, تاریخ شاہد ہے کہ استاد کی عظمت سے اس قدر بلند پایہ اولو العزم حکمران بھی واقف تھے۔
آج اگر اہلِ مغرب ہم سے اس قدر آگے نکل گئے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ استاد کا اصل مقام جانتے ہیں۔ اگر پبلک ٹرانسپورٹ میں کوئی سیٹ خالی نہ ہو تو پھر بھی لوگ قوم کے استاد کے لئے سیٹ خالی کردیتے ہیں۔ وہاں عدالت میں استاد کی گواہی کو پادری کی گواہی سے زیادہ مستند سمجھا جاتا ہے۔ امریکہ میں رواج ہے کہ جب کوئی طالب علم کامیابی حاصل کرتا ہے تو وہ اپنے استاد کو سیلوٹ کرتا ہے، بالکل ویسے جیسے ایک سپاہی اپنے افسر کو سلیوٹ کرتے ہیں۔
کوئی بھی کچھ جانتا ہے تو معلم کے طفیل
کوئی بھی کچھ مانتا ہے تو معلم کے طفیل
گر معلم ہی نہ ہوتا دہر میں تو خاک تھی
صرف ادراکِ جنوں تھا اور قبا ناچاک تھی،
تاریخ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ جب ہندوستان کی انگریز حکومت نے حضرت علامہ اقبال کو سر کا خطاب دینے کا ارادہ کیا تو اقبال کو وقت کے گورنر نے اپنے دفتر آنے کی دعوت دی۔ اقبال نے یہ خطاب لینے سے انکار کردیا۔ جس پر گورنر بے حد حیران ہوا۔ وجہ دریافت کی تو اقبال نے فرمایا؛ ”میں صرف ایک صورت میں یہ خطاب وصول کرسکتا ہوں کہ پہلے میرے استاد مولوی میرحسن کو ”شمس العلماء“ کا خطاب دیا جائے۔یہ سن کر انگریز گورنر نے کہا؛
”ڈاکٹر صاحب! آپ کو تو ”سر“ کا خطاب اس لئے دیا جا رہا ہے کہ آپ بہت بڑے شاعر ہیں۔ آپ نے کتابیں تخلیق کی ہیں، بڑے بڑے مقالات تخلیق کئے ہیں۔ بڑے بڑے نظریات تخلیق کئے ہیں۔ لیکن آپ کے استاد مولوی میر حسن صاحب نے کیا تخلیق کیا ہے…؟“
یہ سن کر حضرت علامہ اقبال نے جواب دیا کہ؛
”مولوی میر حسن نے اقبال تخلیق کیا ہے“
یہ سن کر انگریز گورنر نے حضرت علامہ اقبال کی بات مان لی اوران کے کہنے پر مولوی میر حسن کو ”شمس العلماء“ کا خطاب دینے کا فیصلہ کرلیا۔ اس پر مستزاد علامہ صاحب نے مزید کہا کہ؛
”میرے استاد مولوی میر حسن کو ”شمس العلماء“ کا خطاب دینے کے لئے یہاں سرکاری دفاتر میں نہ بلایا جائے بلکہ ان کو یہ خطاب دینے کے لئے سرکاری تقریب کو سیالکوٹ میں منعقد کیا جائے، یعنی میرے استاد کے گھر،اور پھر ایسا ہی کیا گیا۔ مولوی میر حسن کو آج کوئی بھی نہ جانتا اگر وہ علامہ اقبال کے استاد نہ ہوتے۔ لیکن آج وہ شمس العلماء مولوی میر حسن کے نام سے جانے جاتے ہیں۔
الغرض استاد کا مقام اور عظمت ہر شے سے بْلند ہے۔ حتیٰ کہ خود رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا استاد اللہ تعالیٰ کو کہا جاتا ہے۔ اور رسولِ اکرم کی حدیث پاک ہے کہ ”مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا“۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لئے تاجر کاخطاب پسند نہ کیا حالانکہ آپ حجاز کے ایک کامیاب ترین تاجر تھے۔ آپ نے اپنے لئے پسندکیاتومعلم یعنی استادکارتبہ چنانچہ استاد کی عظمت سے کچھ بھی بڑھ کر نہیں..