8 مئی کو تھیلیسمیا سے بچاؤ کے عالم دن کے طور پر منایا جاتا ہے تھیلیسمیا دراصل خون کی ایک جینیاتی بیماری ہے جس میں خون کے خلیے جسمانی ضرورت کے مطابق آکسیجن کی مناسب مقدار سپلائی کرنے کے قابل نہیں ریتے جس کی وجہ سے خون کی مقدار جسمانی ضرورتوں کو پورا نہیں کر پاتی کیونکہ بون میرو نارمل طریقے سے خون کے سرخ خلیے تیار کرنے کے قابل نہیں ہوتالہٰذا دل اوردیگر جسمانی اعضاء خون کی کمی کے باعث کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں تھیلسمیا کے مریضوں میں خون کے سرخ خلیے کم تعداد میں بنتے ہیں اور ہموگلوبین کی مقدار ضرورت سے کم ہوتی ہے۔
ہموگلوبین خون کے سرخ خلیوں کا فولادی پروٹین ہے جو جسم کے تمام حصوں کو آکسیجن مہیا کرتا ہے اس کے ساتھ ساتھ فاضل گیس کاربن ڈائی آکسائیڈ کو پھیپھڑوں تک پہنچاتا ہے جہاں سے وہ سانس کے ذریعے اسے جسم سے خارج کردیتا ہے تھیلیسمیا کا مریض پوری زندگی اس بیماری کا شکار رہتا ہے یہ بیماری مردوعوت دونوں کو متاثر کرتی ہے اس بیماری کی دو اقسام ہیں تھیلسمیا مائنر اور تھیلسمیا میجر یہ دونوں اقسام ایک سے دوسری نسل میں منتقل ہوتی ہے اہم بات یہ ہے کہ یہ بیماری (بغیر جنسی تعلقات کے) ایک سے دوسرے شخص ہیں منتقل نہیں ہو سکتی تھیلیسمیا کی دونوں اقسام صرف اور صرف والدین سے ہی بچوں میں منتقل ہوتی ہے اگر والدین میں سے صرف والد یا والدہ تھیلیسمیا مائنر ہوتو بچوں میں صرف تھیلیسمیا مائنر کی منتقلی ہوتی ہے۔
یہ چانس ہر حمل میں 50 فی صد ہے ایسی شادی کے نتیجے میں ان بچوں میں سے کحچھ کو تو تھیلیسمیا مائنر ہوسکتا ہے جبکہ کحچھ بچے نارمل ریتے ہیں ان نارمل بچوں میں تھیلیسمیا مائنر یا میجر منتقل نہیں ہو گا تھیلیسمیا چایے مائنر ہو یا میجر یہ پیدائش کے وقت موجود ہوتا ہے مگر یہ پیدائش کے بعد کسی حالت میں بھی نہیں لگ سکتااہم بات یہ ہے کہ تھیلیسمیا مائنر تاحیات مائنر ہی رہتا ہے اور تھیلیسمیا میجر ہمیشہ میجر ہی رہتا ہے یہ ایک دوسرے میں کبھی تبدیل نہیں ہوتے ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ جن لوگوں کو تھیلیسمیا مائنر لاحق ہوتا ہے انہیں وہ تھیلیسمیا کا مریض کہنا مناسب نہیں سمجھے کیونکہ اکثر و بیشتر ان افراد میں اس کی علامات بالکل نظر نہیں آتی۔
ان میں تھیلیسمیا کی تشخیص خون کے ایک خاص ٹیسٹ Hemoglobin electrophoresis کے ذریعے ہوتی ہے اکثر تھیلیسمیا مائنر میں مبتلا لوگ بات خود تندرست ہوتے ہیں لیکن یہ مرض ان کی آئندہ نسلوں میں منتقل ہوسکتا ہے ایسے لوگوں کو کیریر بھی کہا جاتا ہے تھیلیسمیا مائنر میں اکثر و بیشتر بیماری کی علامات ظاہر نہیں ہوتیں ایسے افراد عام طور پر بالکل تندرست نظر آتے ہیں اور ان کو مرض میں مبتلا ہونے کا احساس نہیں ہوتا پھر یہی بے خبری صورتحال کو بے حد خطرناک بنا دیتی ہے کیونکہ اگر 2 تھیلیسمیا مائنر افراد بے خبری میں آپس میں شادی کرلیں تو انہیں مستقبل میں تلخ تجربات کا سامنا ہوتا ہے۔
اور ان کے ہاں پیدا ہونے والی اولاد کو تھیلیسمیا میجر ہوجاتا ہے لہذا اس بات کا ادراک انتہائی ضروری ہے کہ ظاہری صحت تھیلیسمیا سے پاک ہونے کی قطعی ضمانت نہیں ہے اس مرض سے خود کو محفوظ رکھنے کے لئے یہ انتہائی ضروری ہے کہ 2 تھیلیسمیا مائنر سے متاثر افراد آپس میں شادی نہ کریں لہٰذا شادی سے قبل تھیلیسمیا کا ٹیسٹ لازمی کروایا جائے تاکہ آئندہ آنے والی نسلوں کو ایسی موذی بیماری سے بچایا جائے ایک اندازے کے مطابق پاکستان کی 5 فی صد آبادی یعنی ایک کروڑ افراد اس مہلک بیماری کے جین رکھتے ہیں اور ہر سال تقریباً 5 ہزار بچے تھیلیسمیا کے مرض کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں۔