|

وقتِ اشاعت :   May 9 – 2020

چین کے شہر ووہان سے پھیلنے والی وبا ء کرونا پوری دنیا میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔دنیا کا ہر ملک تقریباً اس وبا سے متاثر ہوا۔پوری دنیا میں اس وقت 37 لاکھ قریب لوگ اس بیماری کا شکار ہوچکے ہیں اور 2 لاکھ 32ہزار لوگ اس وبا ء سے ہلاک ہوگئے۔ترقی یافتہ ممالک میں اس وبا میں اموات کی تعداد زیادہ ہے جو حیران کن بات ہے۔اب تک اس وباء سے اٹلی میں 29 ہزار سے زائد، اسپین میں 25 ہزار کے قریب، برطانیہ میں 29 لوگوں کے لگ بھگ، امریکہ میں 72 ہزار، ایران میں تقریباً 6 ہزار اور چین میں 4 ہزار 6 سو ہلاکتیں ریکارڈ ہوچکی ہیں۔

قیمتی جانوں کے ضیاع کے ساتھ ساتھ اس وباء کے بین الاقوامی معیشت پر بھی برے اثرات مرتب ہوئے۔ پہلی بار بین الاقوامی منڈیوں میں تیل کی قیمتوں میں ریکارڈتھوڑ کمی دیکھی گئی۔پاکستان میں کرونا وبا کی موجودہ صورتحال اور حالیہ اعدادوشمار کا جائزہ لیتے ہیں۔پاکستان میں کل 22 ہزار سے زائد لوگ اس بیماری کا شکار ہو ئے۔پنجاب میں 8 ہزار 420 افراد،سندھ میں 8 ہزار 189،خبیرپختو میں 3 ہزار 499، بلوچستان میں 1ہزار 485،گلگت بلتستان میں 386،اسلام آباد میں 485 اور آذاد کشمیر میں 76 افراد اس بیماری کا شکار ہو ئے۔ کرونا وائرس سے اب تک پاکستان میں 526 اموات ہوئے جبکہ 6ہزار 217 افراد صحت یاب بھی ہوگئے ہیں۔

جیسے ہی کرونا پاکستان پہنچا، اس نے ہلچل مچائی۔ ایک طرف پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار پاکستان تحریک انصاف کی حکومت آئی جس سے عوام نے بہت سے توقعات وابستہ کی تھیں۔دوسری طرف پاکستان میں صحت کا بھی نظام تسلی بخش نہیں اور نہ ہی پاکستان میں بین الاقوامی طرز کے ہسپتال موجود ہیں۔ موجودہ حکومت تمام غلطیاں ماضی کی حکومتوں پہ ڈالتی رہی جیسے جیسے کرونا کے مریضوں کی تعداد بڑھتی گئی۔ حکومت نے سب سے پہلے تعلیمی ادارے بند کرنے کا اعلان کیا جس میں تمام اسکول، کالجز یونیورسٹیز شامل ہیں۔اس کے بعد وفاق سمیت تمام صوبوں نے لاک ڈاؤن کا اعلان کر دیا۔لاک ڈاؤن ہر شہر اور ہر صوبے میں مختلف تھا،کہیں زیادہ تو کہیں کم،کہیں لاک ڈاؤن میں سختی تو کہیں نرمی، کہیں بالکل کاروبار بند تو کہیں جزوی طور پر دوکانیں کھلی رہیں۔

صوبہ بلوچستان میں بھی لاک ڈاؤن میں نرمی تو ضرور ہے لیکن اس صوبے میں اکثریت غریب طبقے کی ہے جو روزانہ کی بنیاد پہ کام کرتا ہے اورپنے بچوں کا پیٹ پالتاہے۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے یہ طبقہ نہ صرف پریشان ہے بلکہ ذہنی دباؤ کا بھی شکار ہے۔ اس طبقے میں ریڑھی بان،مختلف شعبوں کے مزدور،درزی۔ موچی، حجام اور یہاں تک کہ پرائیویٹ سکول کے استاتذہ بھی شامل ہیں۔حکومت کو چاہیے کہ اس وبا کو روکنے کے لیے ضرور ایسے اقدامات اٹھائے جس سے بیماری نہ پھیلے لیکن یہ بھی حکومت وقت کی ذمہ داری ہے کہ ایسے لوگوں پر نظر رکھے جو بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔

یہ وبااایک نسان سے دوسرے انسان میں منتقل ہوتا ہے، تو اس لئے لاک ڈاؤن کا بنیادی مقصد سماجی فاصلہ ہے۔لیکن بدقسمتی سے بلوچستان میں تو لوگوں کی بڑی تعداد اس وبا کو ماننے سے انکار ی ہے۔بے شعوری کا یہ عالم ہے کہ بعض لوگ سماجی فاصلہ اختیار ہی نہیں کرتے۔چونکہ تعلیمی ادارے بند ہیں طلبہ بڑی تعداد میں گلیوں میں کھیلتے نظر آتے ہیں۔اس طرح کاروبار بند ہونے کی وجہ سے لوگ گھروں میں ہوتے ہیں۔ گھروں میں ٹولیوں کی شکل لوگ کھیلتے نظر آتے ہیں جو بالکل سماجی فاصلہ کے برعکس ہے۔بلوچستان کے شہر یوں کو بھی سوچنا چاہیے کہ اگر حکومت نے لاک ڈاؤن کیا ہے، تو یہ وبا کے روک تھام کیلئے ہے۔ شہریوں کو لاک ڈاؤن پر عمل درآمد کرنا چاہیے۔