اسلام آباد: عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری دونوں ہی کی جانب سے اپنے کارکنوں کے خلاف چھاپہ مارکارروائی کے بعد حکومت کے ساتھ مذاکرات کے خاتمے کا اعلان کردیا۔
جمعہ کے روز اس کارروائی کے دوران پورے دارالحکومت سے پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک اور ان کی اتحادی جماعتوں کے تقریباً300 کارکنوں کو اُٹھایا جا چکا ہے۔
پی ٹی آئی کے سربراہ ڈی چوک پر اپنے کنٹینر چھت پر سے بادل کی مانند گرج رہے تھے ’’میں آپ کو مشورہ دیتا ہوں، شاہ محمود قریشی، حکومت کے ساتھ جاری مذاکرات کو روک دیجیے۔‘‘
اسی طرح کے جذبات کا اظہار شاہراہِ دستور پر ڈیرہ جمائے ان کے ہم منصب کی جانب سے بھی کیا گیا۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے اپنے دھرنے کے شرکاء کو بتایا کہ ’’ہم نے اسلام آباد اور ملک بھر سے اپنے کارکنوں کی گرفتاریاں شروع ہونے کے بعد حکومت کے ساتھ مذاکرات معطل کردیے ہیں۔‘‘
پی اے ٹی کے میڈیا کوآرڈینیٹر غلام علی نے جمعہ کی علی الصبح ڈان کو بتایا تھا کہ پولیس نے پارٹی کے کارکنوں کی ایک بڑی تعداد کو آبپارہ سے اُٹھالیا ہے۔
انہوں نے کہا ’’ان گرفتاریوں کی وجہ سے ہم نے حکومت کے ساتھ مذاکرات معطل کرنے کا فیصلہ کیا ہے، اس لیے کہ وہ ڈبل گیم کھیل رہی ہے۔‘‘
پی اے ٹی کی اتحادی مجلس وحدت المسلمین نے بھی اعلان کیا تھا کہ وہ اپنے رہنما اسد عباس نقوی کی گرفتاری کے بعد حکومت کے ساتھ مذاکرات معطل کرنے کا اعلان کیا تھا۔
اسد عباس نقوی پی اے ٹی کی جانب سے حکومت سے مذاکرات کرنے والی ٹیم کے ایک رکن تھے۔
اسی دوران جمعہ کے روز پی ٹی آئی کے جنرل سیکریٹری جہانگیر خان ترین نے ایک ٹی وی چینل سے بات کرتے ہوئےکہا کہ موجودہ حالات میں پارٹی کے لیے یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ حکومت کے ساتھ مذاکرات جاری رکھے۔
ان کے مطابق پی ٹی آئی نے اپنے حتمی مطالبات کی فہرست حکومت کے حوالے کردی ہے۔
لیکن ان مناظر کے پس پردہ پی ٹی آئی کے ایک عہدے دار نے ڈان کو بتایا کہ بالفرض حکومت ایک عدالتی کمیشن کی تشکیل پر رضامند ہوجاتی ہے، جو گزشتہ عام انتخابات کے نتائج کی آزادانہ تحقیقات کرسکے، تو پی ٹی آئی وزیراعظم کے استعفے کی شرط سے دستبردار ہوسکتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا ’’لیکن اب تک حکومت اس طرح کے کمیشن کے قیام کے مطالبے تک کے خلاف مزاحمت کررہی ہے۔‘‘
کارکنوں کی گرفتاری، پی ٹی آئی اور پی اے ٹی نے مذاکرات معطل کردیے
وقتِ اشاعت : September 13 – 2014