|

وقتِ اشاعت :   May 14 – 2020

ہم زندگی میں تین طرح کی کتابیں پڑھتے ہیں۔ پہلی قسم کورس اور نصاب کی کتابوں پر مشتمل ہے۔ ان کو پڑھے بغیر اور یاد کئے بغیر ہم امتحانات میں پاس نہیں ہوتے اور نہ ہی ہمیں ان کے بغیر ڈگر ی ملتی ہے۔ کورس کی کتابوں کو اپنے وقت کے ماہرِتعلیم، دانش ور، سائنسدان اور علماء کرام ترتیب دیتے ہیں۔ ہر دور اور ہر زمانے کی تحقیق کے مطابق کورس تبدیل ہوجاتے ہیں۔اس لئے تعلیم اور تعلیم یافتہ کو ماپنے کے معیار بھی بدل جاتے ہیں۔ دوسری قسم کی کتابیں ہمارے شوق اور مزاج کے انتخاب کا حصہ ہوتی ہیں۔ یہ کتابیں سیاست، مزاح، فکشن، مذہب، سوانح عمری، سفرنامے، سیلف ہیلپ، فلسفہ، شاعری، حکمت و دانش، روحانیت کی ہوسکتی ہیں۔

ہم اپنی پسند کے مطابق ان کتابوں کو پڑھتے ہیں۔ یہ کتابیں ہمیں سوچ دیتی ہیں اور ساتھ ہی ساتھ ہماری شخصیت کو پروان چڑھانے میں بھی مددگار بھی ہوتی ہیں۔ ہم نے ان کتابوں کا امتحان نہیں دینا ہوتا، لیکن یہ کتابیں ہمیں زندگی کے کئی امتحانوں سے کامیاب گزارتی ہیں۔ کتابوں کی تیسری قسم الہامی کتابوں کی ہے۔ یہ کتابیں اللہ تعالیٰ نے انسانیت کی ہدایت کیلئے زمین پر اتاریں اور ان کتابوں میں آخری کتاب قرآن کریم ہے۔ قرآن کریم عربی میں ہے، ہم اس کتاب کو ادب اور احترام کے ساتھ پڑھتے ہیں۔ قرآن کریم کو سمجھنے کیلئے اردو ترجمے کی مدد لیتے ہیں۔

تاہم ماہرین لسانیات اس پر متفق ہیں کہ کسی زبان کی تحریر کو دوسری زبان میں ہوبہو منتقل نہیں کیا جا سکتا۔ قرآن مجید تو ویسے بھی اللہ کا کلام ہے، جو رہتی دنیا تک رشد و ہدایت کا سرچشمہ ہے۔ دل کی آنکھ سے اور غور و فکر کرکے پڑھنے والوں کو اس کی آیات میں جہان ِمعانی پنہاں نظر آتا ہے اور علم و معرفت کے نئے نئے در وا ہوتے ہیں۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ اس کے علوم کا احاطہ ممکن نہیں۔ مجھے قرآن کریم سے محبت ہے اور میں اس کا ترجمہ تھوڑی سی محنت کے ساتھ پڑھتا ہوں۔ کل میں سورۃ العلق پڑھ رہا تھا، یہ آخری پارے کی سورۃ ہے۔

اس کی ابتدائی آیات رسول اللہؐ پر پہلی وحی کے موقع پر نازل ہوئیں۔ اس کی آیت نمبر چار ہے”الذی علم بالقلم“ اس آیت کا ترجمہ عموماً یہ کیا جاتا ہے کہ ”جس نے علم دیا قلم کی مدد سے“ اللہ کریم نے مہربانی فرمائی اور تھوڑی سی محنت اور غوروفکر سے مجھے پتا چلا کہ قرآن میں ”قلم“ کا لفظ دو معنوں میں استعمال ہوا ہے ایک ”لکھنے والا آلہ“ اور دوسرا ”کسی شے کو کاٹنا“ اب یاد رکھیے کہ جب ہم کسی شے کو کاٹتے ہیں تو ہمیں اس کی اصل حقیقت کا علم ہوتا ہے۔ کاٹنے کے عمل کو آپ اصل چیز تک پہنچنے کا ذریعہ سمجھ سکتے ہیں۔ اس لئے یہاں قلم سے مراد اس انسانی صفت کو بھی لیا جا سکتا ہے جو خدا تعالیٰ نے ہمیں دوسری مخلوقات سے اشرف اور ممتاز بنانے کیلئے دی، یعنی تجسس۔ انسان دنیا کی واحد مخلوق ہے۔

جس کو جاننے کا، کھوج لگانے کا، سیکھنے کا، پتہ لگانے کااور بات کی تہہ تک جانے کا شوق ہے۔ انسانی تاریخ کی ساری ترقی، سارا علم اور ساری کامیابی اس صفت کی مرہون منت ہے۔ آپ اندازہ لگائیں کہ آج انسان اپنی تحقیق اور تجسس کی صلاحیت کی بدولت یہ جان چکا ہے کہ دنیا میں بچھو کی بارہ سو اقسام ہیں۔ وہ یہ بھی جان چکا ہے کہ یہ کہاں کہاں پائے جاتے ہیں، کس بچھو کا زہر کس کام آ سکتا ہے، کون سے زیادہ نقصان دہ اور کون سے فائدہ مند ہیں۔ لیکن دنیا کا کوئی بچھو کسی بھی انسان کے متعلق کچھ نہیں جانتا کیونکہ رب کریم نے اسے علم سیکھنے کا مزاج اور صفت عطا نہیں کی۔ انسان کے سر پر عظمت کا تاج پہنا کر باقی مخلوقات کا سردار اس لیے بنا دیا کہ انسان ساری مخلوقات، چھوٹے سے چھوٹے جراثیم اور بڑے سے بڑے ڈائینو سار کے متعلق علم اکٹھا کرلے لیکن کوئی اور مخلوق دوسروں کے متعلق تو کیا اپنے متعلق بھی نہیں جانتی۔


تجسس ہماری زندگی میں ”کیوں، کیا اور کیسے؟“ کو پیدا کرتا ہے اور جس کی زندگی میں کیوں، کیا اور کیسے موجود ہو وہ خوش قسمت ہے، کیونکہ جب آپ کا سیکھنے کا شوق سلامت ہوتا ہے تو آپ کو اپنی حالت کی خبر ہونے لگتی ہے اور اپنی خبر آپ کو تبدیلی اور ترقی کیلئے اکساتی ہے۔ میں کامیاب کیوں نہیں ہورہا؟ کامیاب ہونے کا کیا طریقہ ہے؟ میں ترقی کیسے کرسکتا ہوں؟ یہ وہ تین قیمتی سوال ہیں جو واقعی اگر کسی کے پاس ہوں تو وہ ان کے جواب تلاش کرکے اپنی زندگی بدل سکتا ہے۔ یاد رکھیں، دنیا کے اندر بڑی سے بڑی تبدیلی کسی انسان کے تجسس کی وجہ سے اور اس کے ذہن میں پیدا ہونے والے سوالات کی وجہ سے آئی۔

مثال کے طور پر اگر رائیٹ برادران کے تجسس کی وجہ سے یہ سوالات ان کے اندر نہ اٹھتے کہ پرندوں کی طرح انسان ہوا میں کیوں نہیں اڑ سکتے؟ کیا ہوا میں اڑنے کا کوئی طریقہ موجود ہے؟ اور ہم کیسے ہوا میں اڑسکتے ہیں؟ تو انسانی دنیا میں جو انقلاب ہوائی جہازوں کی وجہ سے آیا وہ نہ آپاتا۔ دنیا کی ساری ایجادات اور دریافتوں کی فہرست بنا لیں، یہ سب انسان کے تجسس کا کمال ہیں۔ ہر شعبے کی ترقی اور آج کی آسانیاں سب تجسس کی وجہ سے ممکن ہوئی ہیں۔ تجسس کی خوبی کا ایک بہت خوبصورت پہلو یہ ہے کہ ہم سب کا مزاج جدا جدا ہے اور ہم سب میں سیکھنے اور جاننے کا شوق بھی الگ الگ شعبے کا ہے۔ یہ شوق قدرت نے ہمیں عطا کیا ہوتا ہے تاکہ ہم اپنی زندگی میں درست پیشے اور کیرئیر کا انتخاب کرسکیں۔ تجسس علم بڑھانے کا ذریعہ بنتا ہے اور علم آپ کی شخصیت میں اعتماد پیدا کرتا ہے۔ اس لیے کبھی اپنے تجسس کو ٹھنڈا نہ ہونے دیجیے۔

اشفاق احمد صاحب اپنے مشہور پروگرام ”زاویہ“ میں فرماتے تھے کہ ”کبھی بھی اپنے اندر کا بچہ نہ مرنے دینا، یہ اندر کا بچہ تمھیں سیکھنے پر اکساتا ہے“ آپ نوٹ کیجیے سیکھنے اور جاننے کی صلاحیت بڑوں سے زیادہ چھوٹے بچوں میں موجود ہوتی ہے، لیکن ان کو یہ علم نہیں ہوتا کہ کیا جاننا ہے اور کیا نہیں جاننا، جبکہ ہمیں اچھائی اور برائی کا علم تو ہوجاتا ہے لیکن ہم سیکھنے کے جذبے کوگنوا دیتے ہیں اور اس طرح ہمارے ترقی کرنے کے سارے مسل فریز ہوجاتے ہیں۔ اسکول، کالج اور یونیورسٹی اگر طالب علم کے تجسس کو بڑھانے کا ذریعہ بن جائیں تو طالب علم تحقیق کی طرف متوجہ ہوں گے۔ تحقیق یا ریسرچ کی بنیاد پر حاصل کی ہوئی تعلیم ہی اصل علم ہے۔ تمنا اور شوق کے بغیر سبق کا یاد ہونا در اصل لاعلمی ہے، یہ وہ کھانا ہے جسے آپ نے بغیر بھوک کے کھا لیا۔

یقینا نہ تو اس سے آپ لطف اندوز ہوں گے اور نہ ہی آپ اس سے فائدہ اٹھا سکیں گے۔ تجسس آپ کو زندگی میں نئے راستے اپنانے پر اکساتا ہے، پھر آپ کے بنائے ہوئے راستوں سے ہزاروں لوگوں نے گزرنا ہوتا ہے، اس لیے تجسس آپ کو دوسروں سے نمایاں اور ممتاز بنا دیتا ہے۔ ذرا سوچیے، اس دنیا میں کتنے سیب درختوں سے زمین پر گرتے رہے ہوں گے، لیکن جب نیوٹن نے درخت سے سیب گرتے دیکھا تو اس کے تجسس نے اسے یہ سوال سوچنے پر مجبور کردیا کہ ”آخر سیب کو نیچے کھینچنے والی طاقت کون سی ہے؟“ اس تجسس نے ہی اس کو اتنا بڑا سائنس دان بنا دیا۔

پچھلی صدی کا سب سے بڑا سائنسدان آئن سٹائن تھا۔ کسی نے اس سے پوچھا کہ ”تم میں اتنا ٹیلنٹ کس طرح پیدا ہوا؟“ اس نے تھوڑا سا وقفہ لیا، سوال کرنے والے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں اور جواب دیا، ”تجسس کی وجہ سے“۔اس دنیا کا سا را حسن اس ایک چیز کے دم سے ہے۔ اگر انسا نو ں میں تجسس نہ ہو تا تو ہم آج بھی پتھر کے دو ر میں کسی غار میں بیٹھ کر گو شت انجوا ئے کر رہے ہو تے۔