صحافت عربی زبان کے لفظ ”صحف“ سے ماخوذ ہے جس کا مفہوم صفحہ یا رسالہ اخذ کیا جا سکتا ہے۔ انگریزی میں جرنلزم، جرنل سے ماخوذ ہے یعنی روزانہ کا حساب یا روزنامچہ۔صحافت کسی بھی معاملے کے بارے میں تحقیق یا پھر سامعین تک پہنچانے کے عمل کا نام ہے بشرطیکہ اس سارے کام میں نہایت ایمانداری اور مخلص انداز میں کیا جائے۔صحافت لوگوں کی رہنمائی کرنے، افراد کو ایک دوسرے سے جوڑنے، معلومات بہم پہچانے اور تبصروں کے ذریعہ عوام الناس کو حقائق سے روشناس کرانے کا نام ہے۔تین مئی کو دنیا بھر میں عالمی یوم صحافت منایا جاتا ہے، اس دن صحافت کی راہ میں ایثار و قربانی پیش کرنے والے صحافیوں کو خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے، مختلف تقاریب منعقد ہوتی ہیں اور دانشور حضرات پرمغز تقاریر کرکے اس شعبے کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہیں۔
اس سال کرونا کی وجہ سے تقاریب تو منعقد نہ ہوئیں، لیکن اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل سمیت تمام ملکی و بین الاقوامی شخصیات نے اس دن کی مناسبت سے اپنے اپنے پیغامات اور بیانات ارسال کیے ہیں۔ عالمی سطح پر دن منانا ایک اچھی روایت ہے، لیکن اکثر اوقات یہ ایام ظاہری باتوں میں ہی گزر جاتے ہیں اور اس دن کا اصل ہدف و مقصد پس منظر میں چلا جاتا ہے۔ صحافت کا عالمی دن بھی دیگر ایام کی طرح اپنے بنیادی اہداف کے تذکرے کے بغیر گزر جائیگا۔اس طرح تین مئی 2021ء کا دن طلوع ہوجائیگا اور صحافت اور صحافی وہیں کے وہیں کھڑے رہیں گے۔
سوشل میڈیا کے نئے دور نے صحافت اور صحافی کے تصور کو نئے زاویوں سے روشناس کرایا ہے۔ آج جس کے پاس اینڈرائیڈ موبائل فون ہے اور وہ سوشل میڈیا کی دنیا سے منسلک ہے، وہ صحافی ہے، اس کی اہم ترین خبروں تک دسترس ہے اور وہ اس پر اپنے بے لاگ تبصرے بھی کر رہا ہے۔ پرنٹ کے بعد الیکٹرونک میڈیا نے کچھ عرصہ اپنا بھرپور رنگ جمایا لیکن پرنٹ میڈیا اور الیکٹرونک میڈیا کی اہمیت کے باوجود سوشل میڈیا نے خبروں کی ترسیل، منابع تک رسائی اور اس پر فوری تجزیوں کی صورت میں تمام ذرائع ابلاغ کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
سوشل میڈیا ایک شتر بے مہار ہے، وہ کسی بھی طرف رخ کرسکتا ہے۔اس کے باوجود پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا بہت سی خامیوں اور کوتاہیوں کے باوجود سوشل میڈیا سے زیادہ معتبر اور قابل اعتماد ہے۔ لیکن اس بات سے بھی انکار ممکن نہیں کہ حالیہ پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا پر سامراجی طاقتوں بلکہ اگر کھل کر کہا جائے تو صیہونی میڈیا نے اپنا سازشی تسلط جما رکھا ہے۔ صیہونی لابی کے اس غلبے نے پرنٹ بالخصوص عالمی الیکٹرونک میڈیا کے کردار کو مشکوک بنا دیا ہے۔ صحافت کے عالمی دن پر اس بات کا عہد کرنا چاہیئے کہ صحافت، جرنلزم اور خبروں اور تجزیوں کے تبادلے کو حقیقت سے زیادہ سے زیادہ قریب کیا جائے، لیکن ایسا کون کرے، صیہونی لابی نے سب کے ہاتھ باندھ رکھے ہیں۔
صحافی بے لوث اور حقیقی رضاکار ہوتے ہیں جن کو کبھی بھی اپنی ذاتی زندگی کی پرواہ نہیں ہوتی، وہ ہمیشہ ملکی ترقی واستحکام اور علاقائی مسائل کی آواز حکام بالاتک پہنچائی ہے صحافت ہردور اور ہرمعاشرے میں میں کلیدی اہمیت کا حامل شعبہ ہے اگرصحافی سچائی عوام کے سامنے لانے میں اپنا کردار ادا نہ کریں تو ملک گھپ اندھیروں میں ڈوب جائے گا، صحافیوں کی اصل طاقت قلم، کیمرہ، حق و سچ لکھنا اور بولناہے عوامی مسائل کیلئے آواز بلند کرنے والے بھی یہی صحافی ہوتے ہیں ان کو اپنے شعبہ سے دلی لگاؤ ہوتاہے۔
یہی قابل، محنتی اور تحقیقی صحافت کو پروان چڑھانے والے اور اس شعبہ سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کی فلاح وبہبود اور جان ومال کی تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے کیونکہ صحافت ریاست کاچوتھا ستون ہے، مگر افسوس ہمارا معاشرہ ہمارا انتظامیہ اس ستون کو مضبوط کرنے بجائے کے گرانے پر اپنی صلاحیتوں کو صرف کر رہا ہے۔ گزشتہ دنوں سوراب انتظامیہ کی جانب سے صحافیوں کے ساتھ بدتمیزی اور اخبارات کو جلانااس بات کا ثبوت ہے کہ سوراب انتظامیہ کو صحافیوں کیساتھ ساتھ مقدس اوراق کی بھی قدر نہیں ہے۔
اس حرکت سے صحافی برادری کی دل آزاری ہوئی ہے۔اس وقت پاکستان میں صحافی شدید مالی مشکلات و مسائل سے دوچار ہیں۔ دوسری جانب خطے میں نامناسب حالات و واقعات اور دہشتگردی کے باعث درجنو ں صحافی اپنے فرائض کی ادائیگی کے دوران اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے لیکن اس کے باوجود صحافیوں نے کبھی اپنی ڈیوٹی سے منہ نہیں پھیر ا بلکہ درست اور جلد معلومات بمعہ حقائق عوام تک پہنچائے ہیں۔