آج کے اس جدید دور (فورتھ جنریشن) میں سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کی دنیا میں ہر چیز آسانی سے دستیاب ہوتا مگر جن سرکلوں اور روایتوں نے ہماری ذہنی و فکری تربیت کر کے مہذب بنانے میں ایک کلیدی کردار ادا کیا ہے اس سے ہم تیزی کیساتھ دور ہوتے جارہے ہیں،۔۔۔ کْتب بینی (Reading Book)کلچر، اگر آج کے دور کے تقاضوں کے مطابق ہم surviveکررہے ہیں تو یہ انہی اسٹڈی سرکلز، کتب بینی، مکالمہ اور بحث و مباحثے کی روایتوں اور فکری تربیت کی مرہون منت ہے، مکالمہ، بحث مباحثہ تربیتی نشست اور تنقید برائے تعمیر ہمارے معاشرے کی خوبصورتی تھی۔۔
دنیا گلوبلائزیشن کی جانب بڑھتی رہی مشینوں نے انسان کا کام آسان کرنا شروع کیا اور آگے چل کر سوشل میڈیا تک پہنچ گئے۔ ٹیکنالوجی اور خاص کر سوشل میڈیا کی ضرورت سے زیادہ کے استعمال سے آہستہ آہستہ ہمیں باقی روایتوں کیساتھ ساتھ جو سب سے زیادہ نقصان کا سامنا کرنا پڑا وہ نوجوانوں کی کتاب، تحقیق، تخلیق اور تربیتی نشستوں سے دوری کی ہے۔بے شک سوشل میڈیا نے دنیا میں بہت سارے سماجی مسائل کو کم مدت میں ہنگامی بنیادوں پر اْجاگر کرنے میں بے مثال کردار ادا کیا ہے مگر کتاب نے ہمارے اور دنیا کے تمام معاشروں میں انسانوں کے اندر انکساری، بردباری، شعور پیدا کی ہے۔
فیسبک اور دیگر سماجی ربطوں کے ویب سائیٹس کے سامنے انسانی سماج میں کتاب کی زیادہ اہمیت ہے۔ بے شک انٹر نیٹ معلومات کا جنگل ہے مگر اس میں مستند کا دعویٰ کرنا مشکل ہوگا۔میرے نزدیک کتاب پڑھنے میں کتنی تاثیر اور سکون ہے اسکا اندازہم لگا نہیں سکتے۔کتاب میں انسان خودسے اور اپنے وجود سے آشنا ہوسکتا ہے۔ آج میری ا س تحریر کا بنیادی مقصد اپنی زندگی میں کتاب و قلم کی اہمیت اور ان سے فطری رشتے کو قائم و دائم کرنا ہے۔ اگر نوجوان کتاب و قلم سے دوری اختیار کریں تو و دنیا میں اکیلے رہ جاتے ہیں۔ کتاب اور قلم سے دوری سے نہ آپ کودوسروں کے احساسات کا علم ہوگا نہ اپنے خیالات و احساسات کو دوسروں تک پہنچا سکتے ہیں۔ جیسا کہ باقی لٹریچروں کی طرح ہمارے ہاں بھی تراجم کی ایک روایت موجود ہے۔
اسی خیال سے جڑا میرا بھی ایک خواب ہے۔جو بھی کسی کتاب یاکسی بھی لٹریچر کو اپنے لیے فائدہ مند سمجھتا ہے دوسروں تک شیئر کرنے کی عملی روایت کو آگے بڑھائیں تاکہ علم منتقلی کی رواج پاسکے اور ہمارے نوجوان بے راہ روی سے نکل کر کتب بینی اور تربیتی و فکری کاموں کی طرف بڑھیں اور دوسروں کو بھی راغب کریں۔یہ کام انفرادی صورت میں شروع تو کی جاسکتی ہے مگر اس کی پرورش اور آگے لے جانا بہ حیثیت نوجوان ہم سب کی سماجی ذمہ اری ہے۔۔۔آج کے مضمون میں میں اْ ن کتابوں کا مختصر خلاصہ اور اقتباسات کا ذکر کرتا ہوں جو اب تک میں پڑھ چکا ہوں اور اپنی کم علمی اور شعور سے میں نے یہ محسوس کیا کہ ان کتابوں کا مطالعہ شاید وقتی طور پر میرے لیے ضروری ہے۔
مندرجہ ذیل کتاب کے حوالے اکھٹا کرنامیرا کام تھا۔ اگر قاری کو میری یہ کوشش پسند آگئی اوروہ اس مستفید ہوں گے تو میں اسکو تواتر کیساتھ جاری رکھو ں گا۔اب تک صرف یہی چھ کتابوں کاتعارف شامل کر رہا ہوں۔ کتاب سے دوستی کا ایک فائدہ ضرور ہے کہ اچھے انسانوں سے آپکی دوستی کرائے گی۔ اور خاموشی سے اکیلے میں دوسروں کے خیالات آپ تک پہنچائے گی۔
،، سبطِ حسن، موسیٰ سے مارکس تک:، میں لکھتے ہیں کہ،، اس بات کو پنتیس سال سے زیادہ مدت بیت چکی ہے۔ اس اثناء میں دنیا میں اَن گِنت انقلابات آئے۔ کئی ملکوں میں اشتراکی قوتوں کی حاکمیت قائم ہوئی۔ سوشلسٹ تحریکوں نے ایشیاء اور افریقہ میں فروغ پایا اور سوشلزم کا چرچا عام ہوا حتیٰ کہ ہمارے ملک میں بھی اب شاید ہی کوئی پڑھا لکھاشخص ہو جس نے سوشلزم کا نام نہ سْنا ہو۔ اب تو یہاں پر بھی سوشلسٹ لٹریچر آسانی سے دستیاب ہوجاتا ہے۔۔۔۔۔۔
ایک اور جگہ فرماتے ہیں (سوشلزم کے دشمن عام لوگوں کو سوشلزم سے بد گمان کرنے کی غرض سے یہ پروپیگنڈا کرتے ہیں کہ سوشلسٹ معاشرے میں کسی شخص کوذاتی ملکیت کا حق نہیں ہوتا۔لیکن یہ تہمت غلط ہے۔بات یہ ہے کہ ذاتی ملکیت دوطرح کی ہوتی ہے، ایک وہ ذاتی ملکیت جس کے ذریعہ دوسروں کی محنت کا استحصال کر کے اپنی دولت و ثروت بڑھائی جاتی ہے۔۔۔۔
رسول حمزا توف اپنے کتاب میرا داغستان جنکا اردو میں ترجمہ اجمل اجملی نے کیا ہے۔لکھتے ہیں کہ،، جب میں پید ا ہوا تو ابا نے گاؤں کے بڑے بوڑھوں کودعوت دی کہ وہ جمع ہوکر میرے لئے کوئی نام چنیں۔ سبھی لوگ آئے اور اتنی سنجیدگی اور اطمینان سے بیٹھ گئے گویا کسی ملک کی قسمت کا فیصلہ کرنے جارہے ہوں۔ ہر ایک کے ہاتھ میں بلخار کے کوزہ گروں کا بنایا ہوا بڑا سا جام تھا، سارے ہی جام جھا گدار بوزا سے لبریز تھے۔ صرف ایک شخص کا ہاتھ خالی تھا، یہ گاؤں کے سب سے معمر بزرگ تھے، جن کے سر اور داڑھی کے بال یکسر سفید ہوچکے تھے اور جن کے چہرے پر پیغمبروں جیسا نور برس رہا تھا۔پھر بغل کے کمرے سے اماں داخل ہوئیں اور انہوں نے مجھے اْنہی بزرگ کے حوالے کردیا۔
ادھر میں انکی گود میں لہک رہا تھا اور اْدھر میری اماں اْن سے کہہ رہی تھیں:،، محترم بزرگ! آپ نے ہماری شادی پر گیت گائے تھے، کبھی ہاتھ میں پاندور لے کر کبھی طنبورہ لے کر۔ آپ کے گیت بہت ہی پر لطف تھے۔ اب جبکہ میرا بچہ آپ کے ہاتھوں میں ہے، آپ کونسا نغمہ عنایت فرمائیں گے؟ نیک دل خاتون! ماں کی حیثیت میں اب تو اسے گیت سنائے گی، اس کا پالنا ہلاہلاکر، پھر پرندے اور دریا اسے گیت سنائیں گے، یوں تو یہ تلواروں اور گولیوں سے بھی گیت سنے گا لیکن سب سے اچھا اور خوبصورت ترین گیت تو اسے اس کہ دلہن ہی سنائے گی۔
، تو پھر آپ اس کا نام رکھ دیجیے، تاکہ ہمارا سارا گاؤں اور سارا داغستان اس نام سے واقف ہوجائے جو اس کے لئے آپ اس وقت تجویز کریں گے۔،،۔۔۔ اْس بزرگ انسان نے مجھے اپنے ہاتھوں میں اوپر اْٹھایا اور کہا:۔۔۔۔۔۔۔ لڑکی کا نام ایسا ہونا چاہیے کی اْس میں ستاروں جیسی چمک اور پھولوں جیسی مہک ہو۔ لیکن مر د کے نام میں تلوار کی جھنکاریا کتابوں کے علم و دانش کا اظہار ہونا چاہیے۔ میں نے کتابوں میں بہت سے نام پڑھے ہیں۔ میری کتابیں اور میری تلوار یں اس وقت مجھ سے سرگوشی میں ایک ہی نام گونج رہا ہے وہ ہے رسول،،۔۔۔ رسول حمزا توف)
افتادِ گان خاک، فرانز فینن کے قلم سے،: استعمار کی شکست کبھی خاموشی سے عمل میں نہیں آتی اس لیے کہ یہ افراد کو متاثر کرتی ہے اور ان میں بنیادی تبدیلیاں لاتی ہے۔ یہ ان تماشائیوں کو جو اپنی لامعنویت کے بوجھ تلے دبے ہوتے ہیں بامعنی اداکاروں میں تبدیل کردیتی ہے اور وہ تاریخ کی عالی شان روشنی کی چمک دمک میں نمایاں ہوجاتے ہیں۔ اس سے انسانی وجود کا وہ فطری آہنگ پیدا ہوتا ہے جسے نئے لوگ بروئے کار لاتے ہیں۔ اس کیساتھ ہی ایک زبان اور ایک نئی انسانیت وجود میں آتی ہے۔ استعمار کی شکست نئے انسانوں کی حقیقی تخلیق ہوتی ہے۔ لیکن یہ تخلیق کسی مافوق الفطرت قوت کے زیراثر اپنا جائز وجود نہیں رکھتی۔ ہوتا یہ ہے کہ،، شے، جو استعمار کا شکار ہوتی ہے اسی عمل کے دوران میں جس میں آزادی حاصل کرتی ہے آدمیت کا جامہ بھی پہن لیتی ہے۔
بلوچستان آزادی کے بعد، میں ڈاکٹر انعام الحق کوثر / پروفیسر انور رومان، لکھتے ہیں: مورخین نے بلوچستان کی مختلف توضیحات پیش کی ہیں۔ لفظ بلوچستان، نادر شاہ افشار کی وضع کردہ یا عطا کردہ اصلاح ہے۔ قدیم دور میں نہ اسکایہ نام تھا اور نہ اسکی ترکیب موجود تھی اس کے شمال مشرقی حصے پنجاب میں شامل تھے، شمال مغربی حصے صوبہ قندھار میں شامل تھے۔ جنوب مغرب حصہ جسے اب (مکران کہتے ہیں) جیدروشیا یا گدروشیا کہلاتا تھا۔ یہ نام سب سے پہلے ہمیں یونانی مورخین میں ملتا ہے۔۔
تاریخ کا دریچہ، میں اوریانا فلاشی/ منیب شہزاد:میرے خیال میں مجھے قاری کو متنبہ کردینا چاہیے کہ میں اس بات سے کس قدر متفق ہوں اور اس سے بھی کہ سیبوں کے وجود کا مقصد ہی یہی ہے کہ انہیں کھایا جائے اور گوشت بھی کم از کم جمعے کے دن تو کھایا جاسکے۔
ایک بار پھر میں مردوزن دونوں کو برابر برابر یاد دلا دوں کہ میں طاقت کی ابجد کو نہیں سمجھتی بلکہ میں ان لوگوں کو سمجھتی ہوں جو طاقت کے خلاف مزاحمت کرتے ہیں، جو طاقت پر تنقید کرتے ہیں، جو طاقت کا مقابلہ کرتے ہیں اور خاص طور پر ان لوگوں کو جو ظلمت کی طرف سے مسلط کی ہوئی طاقت کے خلاف اْٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور اس سے ٹکرا جاتے ہیں۔ میں نے ہمیشہ یہ تماشہ دیکھا ہے کہ انسانی سرکشی کا رجحان جابرانہ حکومت کی طرف ہوتا ہے کہ جیسے زندگی کا یہی ایک واحد مقصد ہو۔ میں نے ایسے لوگوں کی خامشی کو تحقیر بھری نظروں سے دیکھا ہے۔
جو کبھی ردعمل کا اظہار نہیں کرتے یا وہ یقینا ایک مرد یاعورت کی حقیقی موت پر تالیاں پیٹتے ہیں، اور یاں غور سے سنیں! میرے لئے آج تک انسان کی عظمت کا شاندار تاریخی ورثہ وہی ہے جو میں نے Peloponnesusکی ایک پہاڑی پر دیکھا تھا۔ بنیادی طور پر جب یہ کتاب کچھ بھی ہونے کا دعوی ٰنہیں کرتی تو پھر اصل میں یہ کیا ہے؟ اس سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں مانگتی جو اس کا دعویٰ ہے یعنی کہ یہ ایک سیدھا چودہ ہم عصر سیاسی شخصیات کا حلفیہ بیان ہے جن میں سے ہر کوئی نمائندگی کے ایک تسلسل کا علاقائی پْرزہ ہے۔۔۔(جاری ہے)