|

وقتِ اشاعت :   May 16 – 2020

چند دن پہلے یعنی 11 مئی کو اردو کے معروف افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کا جنم دن تھا۔پائے کے لکھاریوں نے منٹو کے یوم پیدائش کی مناسبت سے ان کے بارے میں خوب قلم فرسائی کی۔جب اتنے سارے مضامین دیکھے تو میں نے چپ سادھ لی۔ویسے بھی مجھ جیسا نو ساختہ لکھاری اتنے بڑے ادیب پر نوک ِقلم سے کتراتا ہے۔لیکن آج بیٹھے بیٹھے ایک جسارت کرلی منٹو نہ سہی سندھی منٹو پہ لکھنے کا تہیہ کر لیا۔

یہ ہمارا المیہ ہے کہ ہم نے صرف سعادت حسن منٹو نہیں بلکہ بہت سے تخلیق کاروں کے ساتھ ایسا برتاؤ کیا کہ آج نئی نسل منٹو کو صرف پڑ ھنا چاہتی ہے منٹو بننا نہیں چاہتی۔
خیر! بات ہو رہی تھی سندھی منٹو کے متعلق۔سندھی منٹو سے میری مراد منیر مانک ہے۔منیر مانک کا شمار سندھی زبان کے لبرل کہانی کاروں اور ناول نگاروں میں ہوتا ہے۔معاشرے کی سچی تصویر کشی کرنے پر اسے بھی منٹو کی طرح مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔اور سماجی برائیاں بے نقاب کرنے پر مخصوص طبقے کی گالیاں بھی سننی پڑیں۔ان کی کہانیوں میں حویلی کا راز خاص طور پر متنازع بنی۔عام لوگوں میں یہ کہانی آج بھی پسند کی جاتی ہے۔مانک اپنی کہانیوں میں فرد کی آزادی کی بات کرتا تھا وہ معاشرے کے فرسودہ رسموں اور رواجوں کے خلاف تھا۔

عورت کو رسموں اور رواجوں کے بلی چڑھانا وہ عورت کی آزادی پر قدغن سمجھتے تھے۔وہ حقیقی معنوں میں عورت کی آزادی کا علمبردار تھا۔مانک فرد کی آزادی اور انتخاب پر مسلط شدہ اقدار اور رسوم کا سماجی تجزیہ کرتا ہے۔ان کی تحریروں میں بغاوت کا جو عنصر برملا نظر آتا ہے وہ خاص طور پر عورتوں کو اپنی آزادی پر اکساتا ہے۔مانک اپنی تحریروں کے ذریعے انقلابی تبدیلی لاتا تھا۔وہ معاشرے میں مرد اور عورت کی عدم مساوات پہ بات کرتا۔لیکن اس کی تحریروں پر بھی منٹو کی طرح فحاشی کا الزام لگا اور ان کی تحریروں کو متنازع قرار دیا جاتا رہا۔مانک ہمیشہ اپنی زندگی میں افسردہ رہا وہ جب ایک بہترین لکھاری کے طور پر ابھر رہا تھا تو غم روزگار نے بھی گھیرا تنگ کیا ہوا تھا۔ہمارے ہاں یہ المیہ ہے کہ ایسے تخلیق کاروں کو کسی بھی جگہ، جگہ نہیں دی جاتی جس سے وہ مایوس ہو کر اجیرن زندگی گزارنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

بھلا کون جانتا تھا کہ اتنا اچھا لکھاری زندگی کے آگے ہتھیار ڈال دے گا۔مانک نے بہت سی ڈگریاں بھی حاصل کی تھیں۔ مانک ایک بے مثال ادیب تھا مگر وہ ہمیشہ ذہنی دباؤ کا شکار رہا۔ خودکشی سے چند دن پہلے اس نے اپنے ایک دوست کو خط میں لکھا تھا۔’میں پہلے بھی اس طرح کے کئی خطوط لکھ چکا ہوں لیکن اس مرتبہ میں یقین دہانی چاہتا ہوں۔ بات یہ ہے کہ نہ تو میں قانون کی پریکٹس کر سکتا ہوں، نہ ہی ڈرگ اسٹور چلا سکتا ہوں۔

میری تربیت اس طرح ہوئی ہے کہ میں فراڈ نہیں کر سکتا اور ان دونوں پیشوں میں یہی کرنا پڑتا ہے۔میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ کیا سندھی ادبی بورڈ میں کوئی اسامی خالی ہے؟ یہاں آپ کے چیئرمین شاہ صاحب کا ایک اچھا دوست رہتا ہے۔ اس نے مجھے یقین دلایا ہے اگر کوئی اسامی نکلی تو وہ شاہ صاحب سے میرے لئے بات کرے گا۔۔۔۔“
خط کے آخر میں منیر نے لکھا تھا کہ ذہنی دباؤ کے باعث وہ لکھنا چھوڑ چکا ہے۔ اور چند دنوں بعد وہ دنیا ہی چھوڑ گیا۔