|

وقتِ اشاعت :   May 17 – 2020

آزادی ِ صحافت، سب سے بڑی جنگ، احفاظ الرحمن/ اقبال خورشید: سال پہ سال گزرتے رہے ایک تاریخی جنگ، پاکستان کی صحافیوں کی سب بڑی جنگ، کی یادیں ساتھ ساتھ چلتی رہیں۔ تمہیں لکھنا ہے، دوستوں کا حلقہ اصرار کرتا رہا۔ ارادہ ٹوٹتا رہا۔ وقت ٹلتا رہا۔ میں خود برنا صاحب سے درخواست کرتا رہا۔ وہ بھی وعدہ کرتے رہے، وقت ٹلتا رہا۔ اب وہ نہیں رہے جو اس تحریک کے معمار تھے۔

خود میری عمر جْھت پٹے کی آغوش میں داخل ہو چکی ہے۔ آخر کار، ایک دن پرانے کاغذات تلاش کرتے ہوئے 1977 -78کی اس یادگار تحریک کے بارے میں خاصا میٹر برآمد ہوا۔ مہناز نے گھر کی دو چھتی میں عرصے سے بند بہت سارے اخبارات اور رسائل برآمد کر لیے۔ ایک دم ذہن میں جھما کا سا ہوا، منزل آسان ہوسکتی ہے۔ پھر وہاب صدیقی سے ملاقات ہوئی۔ ظلم کی نشانیاں ہر طرف بکھری ہوئی تھیں۔ جمہوریت پسند کارکنوں، خاص طور پیپلز پارٹی کے سیاسی کارکنوں پر عذاب کی بھٹی کے دروازے کھول دئیے گئے تھے۔

انہیں گرفتار کیا جاتا سڑکوں، تھانوں اور جیلوں میں بہیمانہ انداز میں تشدد کا نشانہ بنایاجاتا، ملک دشمنی، شر پسندی اور غداری کا الزام لگاتے رہے۔۔۔۔قومی سوال کا مارکسی تناظر، تراجم و ترتیب، عابد میر:: اس ساری بحث کا خلاصہ یہ تھا کہ سامراج سرمایہ داری کا دوسرا مرحلہ ہے جس میں بڑے سرمایہ دار ممالک کے درمیان دنیا کی تقسیم مکمل ہوچکی ہے، سامراج کی ایک نہایت اہم خصوصیت سامراجی طاقتوں کی آپس میں دشمنی اور بالا دستی کے لیے جدوجہد ہے، جیسے کہ دنیا پہلے ہی تقسیم شدہ ہے اس لیے بالادستی کے لیے جدوجہد کا مقصد ہے دنیا کی دوبارہ تقسیم۔۔۔ نو آبادیاتی قوتیں زرعی خواہ صنعتی ہر قسم کی علاقوں کو آپس میں ملانے کی کوشش کر رہی ہیں۔

بیشتر کو ان کی اقتصادی طاقت کی وجہ سے نہیں بلکہ ان کی جنگی اہمیت کے باعث اور کسی کو براہ راست خود کو فائدہ پہنچانے کے لیے نہیں بلکہ دشمن کو کمزور کرنے کے لیے سامراج کی ایک اور خصوصیت ہے۔جالب جالب، روداد ِ وفا۔ ناصر جالب: اس وقت بھٹو کے خلاف تحریک سول نافر مانی چل رہی تھی۔ دوسرے روز جالب صاحب نے گرفتاری ایک گروپ کی شکل میں دی۔ ان کے ساتھ نواب زادہ نصراللہ خان(مرحوم) ملک قاسم مرحوم نے بھی گرفتاری دی، گھر کے حالات نہایت ناگفتہ بہ ہوگئے۔ مفلسی میں دن رات گزرنے لگے۔

یہاں تک کہ ہماری والدہ نے جو راشن لے رکھا تھا وہ بھی ختم ہوگیا، ہم فاقوں پر آگئے۔ میری والدہ نے باسی ٹکڑوں کو جمع کر کے اور ہمسایوں سے باسی ٹکڑے جمع کر کے مرچ مصالحہ ڈال کر ابال کر کھلانا شروع کر دیئے۔میں،میری بہنیں جمیلہ،نور، افشاں، چھوٹے بھائیوں طاہر عباس، انور عباس نے یہ تنگی ترشی اور پریشانیوں و تکلیف سے بھر پور دن رات گزارے۔ ہر گرفتاری کے بعد میرے دادا، دادی کراچی سے آجایا کرتے اور میرے تایا ابو مشتاق حسین مبارک جو کہ محکمہ تعلقات عامہ کے ڈپٹی ڈائریکٹر تھے اور کراچی مقیم و تعینات تھے، وہ بھی ہمارے لاہور آجایا کرتے اور ہماری مدد فرمایا کرتے۔۔۔

میرا چھوٹا بھائی خدا اْسے اپنی جوار رحمت میں جگہ دے۔ نہایت شریف بچہ تھا۔ نمازی پرہیزگار اور جالب صاحب کی شخصیت کو قریب تین تھا۔ آج وہ زندہ ہوتا تو وہ دوسرا جالب ہوتا۔ وہ آئے روز پولیس کے چھاپوں سے پریشان رہتا۔ گلی محلوں کے بچوں کیساتھ کھیلنے جاتا تو ان سے یہ طعنے سننا پڑتے کہ اس کا باپ غدار ہے یہ ایک غدار کا بیٹا ہے۔ اس سے پوچھو کہ اس کے باپ کو کیوں گرفتار کیا گیا ہے۔ میرے پاس ان کے الفاظ کا جواب نہ ہوتا۔ میں ان سے لڑتا جھگڑتا محلے کے بزرگ اور جاہل لوگ بھی مجھے ڈانٹتے۔

میں گھر آکر ماں سے سوال کرتا کہ ماں یہ ٹھیک کہہ رہے ہیں؟ اور زار و قطار روتا میری ماں مجھے دلاسا دیتی اور کہتی کہ تم نہ جایا کرو ایسے دوستوں کے پاس اور پڑھو لکھو، تمہیں اس سے کچھ نہیں لینا دینا۔ میں پھر سکول جایا کرتا۔

وہاں مجھے بھی یہی الفاظ سننا پڑتے۔ یہ غدار کا بیٹا ہے کیونکہ اس وقت پورے ملک میں NAPلیڈران، باچا خان، ولی خان کے ساتھیوں کو غدار کے لقب سے نواز ا جاتا تھا۔۔(ختم شد)