نادرا کے تین افسروں کو گرفتار کر لیا گیا ہے ۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے جعلی تصدیق اور جعلی دستاویزات کی بنیاد پر افغانوں کو پاکستانی شناختی کارڈ جاری کیے ۔ جن افغانوں کو پاکستانی شناختی کارڈ جاری کیے گئے وہ سب کے سب کوئٹہ کے رہائشی تھے۔ ان سب کو خانوزئی کے رجسٹریشن کے وین سے شناختی کارڈ جاری کیے گئے ۔ تفتیش کے دوران یہ پتہ چلا کہ غیر قانونی تارکین وطن خانوزئی کے رہائشی نہیں تھے ان کے دستاویزات اور تصدیق نامے جعلی تھے ۔ نادرا کے افسران نے رشوت کھا کر ان کو ’’ پاکستانی شہریت ‘‘ اپنے طورپر عطا کردی ۔ ان کرپٹ اور بے ا یمان نادرا افسران نے ریاست پاکستان کے اختیارات غلط طورپر استعمال کر کے پاکستانی شناختی کارڈ غیر قانونی افغان تارکین وطن کو عطا کی ۔ بعض ذمہ دار سیاستدانوں اور قومی سیاسی پارٹیوں کا یہ مؤقف رہا ہے کہ کوئٹہ اور دوسرے شہروں سے پانچ لاکھ سے زائد غیر قانونی افغان تارکین وطن اور افغان مہاجرین کو جعلی دستاویزات اور جعلی تصدیق کی بناء پرپا کستانی شناختی کارڈ جاری کیے گئے ۔ ادھر لورالائی سے اطلاعات ہیں کہ نادرا کے دفاتر پر غیر قانونی افغان تارکین وطن اورافغان مہاجرین کا قبضہ ہے ۔ مقامی افراد کو شناختی کارڈ جاری نہیں ہورہے ہیں ۔ اس سے قبل قلعہ عبداللہ کے ایک تحصیل آفس میں نوے فیصد سے زائد لوکل سرٹیفکیٹ افغان مہاجرین اور غیر قانونی تارکین وطن کو جاری ہوئے ۔ اس تحصیل سے صرف دس فیصد لوکل سرٹیفکیٹ مقامی لوگوں کو جاری ہوئے ۔ جب یہ خبر اخبارات کی زینت بنی تو تحصیل کے تمام ریکارڈ کو جلا دیا گیا ۔ اطلاعات ہیں کہ بعض سیکورٹی ادارے اس بات کی تحقیقات کررہے ہیں کہ 12ہزار سے زائد درخواستیں شناختی کارڈ کے حصول کے لیے جمع ہوئی ہیں ان پر شک ہے کہ وہ پاکستانی شہری نہیں ہیں ، غیر قانونی افغان تارکین وطن ہیں ۔ سیکورٹی ادارے پر سیاسی دباؤ بڑھ رہا ہے کہ وہ ان افغانوں کو پاکستانی شناختی کارڈ جاری کرے تا حال سیکورٹی کے افسران اس سیاسی دباؤ کی مزاحمت کررہے ہیں ۔ وہ سیاسی دباؤ میں نہیں آئے ہیں ۔ افغان پاکستان کی سلامتی کیلئے خطرہ ہیں خصوصاً وہ افغان جو غیر قانونی طورپر پاکستان میں داخل ہوئے ہیں اور پاکستان میں رہائش پذیر ہیں ۔ اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں کہ افغان پاکستان کے مفادات کے خلاف کام نہیں کریں گے۔ یہ افغان جہاد تھا کہ جس کا رخ پاکستان کی طرف ہوگیا بلکہ افغانوں نے اپنی بندوق کا رخ اسلام آباد کی طرف کردیا ۔ وجہ یہ تھی کہ پاکستان کی جانب سے ان کی تنخواہیں بند ہوگئیں تھیں ۔اب تو پاکستان کے خلاف ملکوں کا متحدہ محاذ ہے جس کے پاس بہت زیادہ وسائل ہیں اور وہ افغانوں کو آسانی سے پاکستان کے خلاف استعمال کرسکتے ہیں ۔ لہذا غیر قانونی افغان تارکین وطن کو جوملک کے لئے ایک ’’سیکورٹی رسک‘‘ہیں ، پہلے تو ان افغان مہاجرین کو فوری طورپر افغانستان کے سرحدوں کے اندر ان کے کیمپوں میں منتقل کیاجائے جیساکہ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے مطالبہ کیا تھا ۔ افغانستان کے ساتھ سرحد کی صورت حال روز بروز خراب ہورہی ہے ۔ افغانستان مختلف بہانوں سے ڈیورنڈ لائن کا قضیہ دوبارہ اٹھا لیا ہے ۔ اس لئے حکومت پاکستان کو افغان تارکین وطن اور افغان مہاجرین پر اعتبار نہیں کرنا چائیے ۔ غیر قانونی تارکین وطن کو فوری طورپر گرفتار کرکے ان کی جائیداد ضبط کرکے ان کو افغانستان واپس دھکیل دیا جائے ۔ اقوام متحدہ کے ادارے سے کہا جائے کہ وہ اپنی ’’ ہیرے اور جواہرات ‘‘ جو مہاجرین کی شکل میں ہیں واپس افغانستان لے جائیں کیونکہ ان کی زندگیوں کو افغانستان میں کوئی خطرہ نہیں ہے ۔ وہ پاکستان میں معاشی مہاجر کے طورپر رہتے ہیں ۔ پاکستان خود معاشی اور مالی مشکلات کا شکار ہے وہ لاکھوں افغانوں کا مزید بوجھ برداشت نہیں کرسکتا ۔ حکومت کوچائیے کہ اقوام متحدہ کے ساتھ معاہدے کو منسوخ کرے جس کی رو سے اگلے سال دسمبر تک افغانوں کو پاکستان میں رہنے کی اجازت دی گئی ہے ۔ پہلا کام یہ ہے کہ غیر قانونی تارکین وطن کو گرفتار کیاجائے ان کے پاکستانی شناختی کارڈ منسوخ کیے جائیں ۔ غیر قانونی طورپر ملک میں داخل ہونے پر ان کو قانون کے مطابق سزادی جائے ۔ ان کے تمام سیاسی حمایتیوں کو شٹ اپ کال دی جائے کہ وہ غیر ملکی تارکین وطن کی حمایت ترک کردیں ۔