|

وقتِ اشاعت :   May 18 – 2020

میڈیا ریاست کا چوتھا ستون کہلاتا ہے۔ میڈیا کا آج کے دور میں انتہائی اہم کردار ہوتا ہے۔ میڈیا کا کام لوگوں کو باخبر رکھنا ہے۔ میڈیا کا اہم مقصد لوگوں تک بروقت تازہ ترین معلومات پہچانا ہے۔ میڈیا سے منسلک لوگ صحافی کہلاتے ہیں، جو مختلف خبریں اکھٹی کرتے ہیں۔ وہ خبریں سیاست،معیشت، حالات حاضرہ، کھیل اور اندورنی اور بیرونی معاملات کی ہوتی ہیں۔میڈیا کو دو اقسام میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلا الیکٹرونک میڈیا ہے۔ ٹیلیویژن اور ریڈیو اس کی مثالیں ہیں۔ سیٹلائٹ کا الیکٹرونک میڈیا اہم کردار ہوتا ہے۔جبکہ دوسری قسم پرنٹ میڈیا ہے۔ کتابیں، میگزین اور اخبارات پرنٹ میڈیا کی مثالیں ہیں۔انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کم وقت میں بڑی تیزی کے ساتھ مقبول ہوا۔

انٹرنیٹ میں صارفین کو الیکٹرونک میڈیا کا اور پرنٹ میڈیا کا مواد دونوں بہ یک وقت مل سکتا ہے۔ سمارٹ فونز کا انٹرنیٹ میں اہم کردار ہوتا ہے۔ اگر سوشل میڈیا کو جدید ترین میڈیا کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔بلوچستان میں میڈیا کی تاریخ بتاتی ہے کہ میڈیا یہاں کب شروع ہوا۔پہلے یہاں پرنٹ میڈیا شروع ہوا۔ بعد میں ریڈیو معلومات فراہم کرنے کا ایک اہم آلہ بنا۔اگر بلوچستان میں میڈیا کی بات کی جائے۔ سب سے پہلے بلوچستان میں پرنٹنگ پریس 1888 میں بنایا گیا۔اس سے 19 اخبارات شائع ہوتے تھے۔ یوسف عزیز مگسی، عبدالعزیز کرد اور عبدالصمد خان اچکزئی نے زمیندار اور آزاد اخبارات میں برطانیہ راج کے خلاف لکھنا شروع کیا۔ اپنی تحریروں کی وجہ سے انھیں جیل کے سلاخوں کے پیچھے ڈال دیاگیا۔

رہائی کے بعد انہوں نے لکھنا جاری رکھا۔ رقبے کے لحاظ سے بلوچستان پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ اس کی آبادی لگ بھگ 12 ملین ہے۔ اگر بلوچستان کا موازنہ دیگر صوبوں کی تعلیم سے کی جائے تو بلوچستان کی شرح خواندگی بہت کم ہے۔ اس کی اہم وجہ غربت ہے۔جہاں تک الیکٹرونک میڈیا کی بات ہے۔ تو پاکستان میں مختلف چینلز ہیں۔کچھ چینلز میں موسیقی، ڈرامے، فلمیں اور کھیل کے پروگرام دکھائے جاتے ہیں۔ جبکہ اکثر چینلز خبروں کی ہیں۔ تقریباً 40 سے زائد خبروں کی چینلز ہیں لیکن بدقسمتی سے ان تمام چینلز میں بلوچستان کے لیے کوئی جگہ نہیں، یہ چینلز بلوچستان کے سماجی مسائل کو کوریج نہیں دیتے۔ بہت کم چینلز جو بلوچستان کی نمائندگی کرتے ہیں جسے کہ پی ٹی وی بولان اور وش نیوز۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قومی میڈیا بلوچستان کو کیوں نظر انداز کرتی ہے بلوچستان وہ صوبہ ہے جہاں روزانہ کی بنیاد پر واقعات رونما ہوتے ہیں۔ بم دھماکے ہوتے ہیں۔ طلباء اور ڈاکٹروں کو اغواء کیا جاتا ہے۔ ہسپتال اور تعلیمی ادارے محفوظ نہیں لیکن الیکٹرونک میڈیا کو کیوں یہ نظر نہیں آتی کیونکہ میڈیا مالکان کو بلوچستان سے کچھ نہیں ملتا اس لئے الیکٹرونک میڈیا بلوچستان کے لیے خاموش ہے۔بلوچستان میں صحافتی سرگرمیاں کرنا کوئی آسان کام نہیں، بہت سے صحافی فرائض سرانجام دیتے ہوئے اپنی جانیں گنوا بیٹھے۔

لیکن چینلز مالکان نے ان کے خاندانوں کی کوئی معاونت نہیں کی۔الیکٹرونک میڈیا کو چاہیے کہ وہ بلوچستان کو کوریج دے۔وہ کوریج جو دیگر صوبوں پنجاب، سندھ اور خیبرپختونخوا کو دیتی ہے۔بلوچستان کے ارباب اختیار کو بھی چاہیے کہ وہ زیادہ سے زیادہ فنڈز تعلیم کے لیے وقف کریں۔ جب تعلیمی نظام بہتر ہوگا۔ الیکٹرونک میڈیا خود بخود بلوچستان کو کوریج دے گا۔ ثقافت بلوچستان کی خوبصورتی ہے۔ اگر الیکٹرونک میڈیا بلوچستان کے ثقافت کو فروغ دے گا۔ اس کے اچھے نتائج آئیں گے۔ میڈیا کو چاہیے کہ اس مواد کو دکھائے جو بلوچستان کی نمائندگی کرے۔