|

وقتِ اشاعت :   May 19 – 2020

جب ہم ساری دنیا پر نظر جمائیں تو دنیا میں جتنے مسلم ممالک ہیں جیسے فلسطین،شام،عراق، لبیا،یمن، افعانستان،ایران پاکستان اور کشمیر سب کے سب پریشانی،دکھ اورالم میں ہیں۔ ان میں مختلف قسم کی جنگ وجدال اور دہشت گردی کے نام سے فسادت جاری ہیں۔ مسلمان ہی مسلمان کے ہاتھوں قتل ہورہے ہیں۔ بہت افراد خود کش دھماکوں کی زد میں آکر بغیر کوئی گناہ شہید ہوگئے جن کی وجہ سے مختلف ممالک میں مختلف نام سے فوجی آپریشنز ہو رہے ہیں۔کئی افراد نے اپنے گھر بار چھوڑ کر ہجرت کرکے دوسرے علاقوں کو منتقل ہوگئے ہیں جو وہاں پر مختاجی کے ساتھ زندگی بسر کر رہے ہیں۔

وہاں پر کئی مسائل سے دو چار ہیں۔ خوراک کی قلت، سہولیات کا فقدان، کاروبار اور کام کاج کی عدم موجودگی۔ وہاں پر مالدار اور عزت دار لوگ غربت کی لیکر سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔روس نے 1979ء میں افغانستان پر یلغار کیا تھا۔ اس جنگ میں لاکھوں کی تعداد میں مسلمان شہید و معذور ہوگئے۔ افغانستان سے روس کی واپسی کے بعد افغانستان میں اقتدار کی رسہ کشی کے لیے مختلف گروہوں کے درمیان خانہ جنگی شروع ہو گئی تھی جو تاحال جاری ہے جس میں لاکھوں کی تعداد میں لوگ قتل ہوئے اور ہورہے ہیں۔

اس رمضان کے بابرکت مہینے میں کئی دھماکے اورکابل کے سرکاری ہسپتال میں زچہ بچہ وارڈ پر بے دردی سے فائرنگ ہوئی جس میں کئی بے گناہ نوزائیدہ بچے، مائیں اور نرسیں شہید ہوگئیں۔ یہ تاریخ کی کتنی بڑی خونریزی ہے۔ ان خواتین اور چھوٹے بچوں کے گناہ کیا تھا؟۔ سوشل میڈیا پر ان کے جو تصاویر شیئر کی گئیں وہ ہر شخص کو رلاتے ہیں۔ افغانستان میں گزشتہ منگل کو دوسرا بڑا حملہ مشرقی صوبے ننگرہار میں ہوا جہاں ایک خودکش بمبار نے ایک سینئر پولیس کمانڈر کے جنازے میں شریک مجمع میں خود کو دھماکے سے اڑا دیا۔ اس حملے میں چوبیس لوگ شہید جبکہ اڑسٹھ زخمی ہوگئے۔ اس حملے کی ذمہ داری داعش نے لی ہے۔

کیا یہ حملے غیر مسلم نے کیے ہیں؟ کبھی نہیں بلکہ اپنے آپ کو مسلمان کہلاتے ہوئے انہوں نے یہ حملہ کیے ہیں۔کیا ان لوگ کی فریاد، چیخ وپکار قہر خداوندی کو دعوت دینے کے برابرنہیں؟ ضرور ہے کہ ایک دن ضرور اللہ تعالیٰ کا قہر و غضب جوش میں آکر سب سے انتقام لے گا۔ ان واقعات نے چنگیز خان اورہلاکو خان کی واقعات کوتازہ کر دیا۔ وہ تاریخ کے سیاہ ترین اوراق ہیں یہ بھی اس طرح سیاہ ترین اوراق میں شمار کیا جائے گا۔ دونوں کے درمیان فرق صرف مسلم اور غیر مسلم کے ہیں۔ افغانستان میں آخر کب تک یہ خونریزی جاری رہی گی؟ کیا کوئی امید کی کرن موجود ہے؟ اقتدار کے لیے یہ سب کچھ ہو رہاہے۔ اگر کوئی خونریزی کرکے ان کو اقتدار مل بھی جائے تو کیا اس میں ان کے لیے کوئی لطف اور مزہ ہوگا؟ کبھی نہیں۔خدا را ان مظلوم عوام پر یہ ظلم بند کیا جائے۔ ایک دن ضرور اللہ تعالی کے سامنے پیشی ہوگی۔ پھر اللہ تعالیٰ کو کیا جواب دینگے۔

افغانستان میں بیرونی مداخلت بھی ایک بڑی وجہ بد امنی کی ہے جو مختلف ممالک،مختلف گروپس کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔تمام مسلم ممالک خدا را افغانستان کی عوام پر رحم کریں خاص کر پڑوس ممالک پاکستان، ایران اور تاجکستان مل کر افغانستان میں جنگ بندی اور قتل وغارت کو ختم کرنے کے لیے سر تھوڑ کوشش کریں۔ کیونکہ حدیث میں آتا ہے کہ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے تو بھائی ہونے کی وجہ سے وہاں پر قیام امن کے لیے کوشش کی جائے۔ افغانستان میں تمام دھڑے یعنی موجودہ حکومت، طالبان اور دیگر جنگجو گروپ آپس میں مل بیٹھ کر ایک مشترکہ اسلامی حکومت کو تشکیل دیں، اس میں کسی بیرونی ملک کی مداخلت نہ ہو۔ افغانستان میں طالبان ایک مضبوط قوت ہے۔ اس نے امریکی افواج کو بہت زیادہ مالی و جانی نقصان پہنچا یا۔

اس وجہ سے امریکہ آخر کار طالبان کے ساتھ صلح کرنے کے لیے مجبور ہوا۔ان کو حکومت سے باہر رکھنے پرکبھی افغانستان میں امن وامان نہیں آئے گا۔ لہذا موجود صدر افغانستان جناب اشرف غنی صاحب ایک قابل شخص ہیں۔ ان کی خدمت میں عرض ہے کہ وہ طالبان کے ساتھ صلح کے لیے فی الفور مذاکرات کا اعلان کرے۔ان کو حکومت میں زیادہ سے زیادہ نمائندگی دی جائے۔ وہ اپنی عوام کو مزید امتحان میں نے ڈالے۔ اگر حکومت زور اور جنگ کے ساتھ طالبان کوختم کرنے چاہتی ہے تو یہ بہت مشکل ہے کیونکہ طالبان نے امریکہ، نیٹو افوج اور افغان حکومت کے ساتھ تقریبا ًبیس سال تک جنگ لڑی اور ان کو شکست نہیں ہوئی۔ لہذا افغان حکومت اپنے عوام کی خاطر تمام جنگجو گروپس کے ساتھ از سر نو امن وامان کے لیے مذکرات کا راستہ اختیار کر کے ویران افغانستان کو آباد کیا جائے۔