|

وقتِ اشاعت :   September 18 – 2014

اسلام آباد: حزب اختلاف کی جماعتوں کے نمائندوں پر مشتمل جرگے کے ایک اہم رکن نے بدھ کے روز پارلیمنٹ کے اجلاس کو یہ بتایا کہ یہ جرگہ حکومت اور پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے مظاہرہ کرنے والی جماعتوں کے درمیان جاری چونتیس روزہ تعطل کے خاتمے کے لیے ایک قابل عمل حل کے نزدیک پہنچ گیا ہے۔ اس جرگے کی خواہش ہے کہ اس مقصد کے حصول کے لیے دونوں فریقین کے درمیان پانچ روز کی جنگ بندی کی جائے اور حراست میں لیے گئے کارکنوں کو رہا کردیا جائے۔ پیپلزپارٹی کے رہنما رحمان ملک نے مظاہرین کی جانب سے وزیراعظم کے استعفے کے مطالبے کی مخالفت کرتے ہوئے نواز شریف کی حمایت کی اور کہا کہ ان کے چھ رکنی جرگے کا فارمولہ آئین کی حدود کے اندر اور عوامی آواز کی عکاسی کرتے ہوئے جاری بحران کا حل پیش کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ جو کچھ وہ کہہ رہے ہیں، اس کا نہیں جرگے کی جانب سے اختیار دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ فارمولہ مظاہرین کی جانب سے وزیراعظم اور وزیرِ اعلٰی پنجاب کے استعفے کے مطالبے کا ایک حل پیش کرے گا، جو انتخابی دھاندلی کی تعریف اور اگر دھاندلی ثابت ہوجائے تو کیا کیا جانا چاہیے، کی تجویز پر مشتمل ہوگا۔ وہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور پاکستان عوامی تحریک (پی اے ٹی) کے ان الزامات کا حوالہ دے رہے تھے، جس میں ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ ن کے موجودہ حکمرانوں کے کہنے پر گزشتہ سال کے عام انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کی گئی تھی۔ انہوں نے حزبِ اختلاف کی جماعتوں کی طرف سے مشترکہ طور پر پیش کیے جانے والے اس فارمولے کے بارے میں بیان کرتے ہوئے کہا ’’یہ آئین، قانون اور عوام کی آواز کے مطابق ہوگا۔‘‘ رحمان ملک نے مخالف فریقوں کے درمیان پانچ دن کی جنگ بندی کی شرط کے مطالبے پر کہا ’’شاید ہم آپ کو کچھ نتائج دے پائیں گے۔‘‘ اگرچہ اس جرگے کی قیادت جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کررہے ہیں، تاہم سینیٹر رحمان ملک نے حزبِ اختلاف کی مرکزی جماعت کے نمائندے کے طور پر احتجاجی جماعتوں کے رہنماؤں کے ساتھ اس گروپ کے مذاکرات میں اہم کردار ادا کیا ہے اور انہیں اپنی پارٹی کے رہنما اور سابق صدر آصف علی زرداری کا مینڈیٹ بھی حاصل ہے۔ انہوں نے کہا کہ مذاکرات کو کامیاب بنانے کا ایک ہی راستہ ہے، اور انہوں نے ایک قدم پیچھے ہٹنے کے لیے دونوں فریقین پر زور دیا۔ رحمان ملک جو پیپلزپارٹی کی گزشتہ حکومت کے دوران وزیرِ داخلہ تھے، کئی روز سے جاری قومی اسمبلی اور سینیٹ کے مشترکہ اجلاس کی اختتامی کارروائی کے دوران سامنے آئے۔ واضح رہے کہ یہ اجلاس پی ٹی آئی اور پی اے ٹی کی جانب سے پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے ایک ماہ سے زیادہ عرصے سے جاری دھرنوں سے پیدا ہونے والی صورتحال پر طلب کیا گیا تھا۔