|

وقتِ اشاعت :   May 21 – 2020

بلوچستان میں بہت ہی کم مثالیں ملیں گی کہ ایماندار آفیسران صوبے کے ماتھے کے جھومر یا فخربنے ہوں۔ آپ کو صوبے میں کسی بھی لائق فائق ایماندار آفیسر صوبے کی کسی اہم پوسٹ پر نہیں ملے گا بلکہ یوں کہئے کہ ایمانداری کو اب انعام اور ایوارڈ نہیں بلکہ سزا ملتی جا رہی ہے جو ایمانداری کریگا اسے منسٹرز تک تھپڑیں مارتے ہوں گے۔ جہاں منسٹرز سیکرٹریز پر ہاتھ اٹھاتے ہوں وہاں یقینا میرٹ اور گڈ گورننس کا جنازہ ہی نکلے گا-گزشتہ ماہ سیکرٹری ہیلتھ کے ساتھ اس طرح کی عزت افزائی کا واقعہ بھی رونما ہوا تھا۔

جس صوبے میں سفارش کلچر اور سیاسی اثرورسوخ عام ہو جہاں تحصیلدار سے لیکر دیگر تمام انتظامی آفیسران تک کا تبادلہ میرٹ کی بجائے پسند اور ناپسند پر ہو جہاں نیک نام اور معروف ڈی ایم جی آفیسران کے بجائے لوکل, مقامی اور غیر معروف انتظامی آفیسران ہمارے ارباب اختیار کی نظروں میں ہوں اور وہی آفیسران ہی صرف منظور نظر ہوں جہاں جونئیر لوگوں کو اہم عہدوں پر مسلط کر دیاجاتا ہو وہاں ایماندار اور نیک نام آفیسر کو کیونکر تعینات کیا جائے گا۔ بلوچستان ملک کا شاید واحد صوبہ ہے جہاں کارگردگی اور فرائض کو ایمانداری سے سرانجام دینا جان جوکھوں کے مترادف ہے بلکہ ایسے ایماندار آفیسر آپ کو کہیں بھی کسی بھی پوسٹ پر کم ہی نظر آئیں گے یا یوں کہیں کہ وہ ہر وقت آفیسر بکار خاص (او ایس ڈی) کردیئے جاتے ہوں وہاں فرائض میں سیاسی اشرافیہ کی ناراضگی بھی قہر کو دعوت دینے کے مترادف ہوتا ہے۔ اسی طرح کے سینکڑوں واقعات صوبے میں ہوتے رہتے ہیں ان میں سے ایک واقع قارئین کی نظر کرتا ہوں۔

گزشتہ ماہ اسٹنٹ کمشنر دالبندین گودی عائشہ زہری نے علاقے میں منشیات فروشوں، سمگلروں اور طاقتور مافیاز کے گرد گھیرا تنگ کرنا شروع کر دیا۔تن تنہا ایک عورت نے دالبندین جیسے علاقے جسے مافیاز کا علاقہ یا گزرگاہ کہا جائے بجا ہوگا بلکہ یوں کہا جائے کہ یہ علاقے ان کیلئے جنت ہیں وہاں وہ پہلی خاتون آفیسر تھی جنہوں نے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر ان سمگلروں اور منشیات فروشوں کا پیچھا کیا اور ایک بڑے چھاپے کے دوران کروڑوں روپے کی منشیات برآمد کرلی۔ یہ منشیات کی برآمدگی اسٹنٹ کمشنر کیلئے وبال بن گئی شاید کسی سیاسی فرعون نے اسے اپروچ کیا ہوگا جسے ایماندار لیڈی آفیسر نے ٹھکرادیا ہو۔ بہرحال اس اہم چھاپے پر اسٹنٹ کمشنر کی حوصلہ افزائی کی جاتی، تعریفیں ہوتیں بلکہ الٹا دالبندین کے ڈپٹی کمشنر فتح خان خجک بھی اس عمل پر موصوفہ کے ساتھ کھڑے ہونے کے بجائے منشیات برآمدگی کو شاید غلط عمل سمجھا اور ڈپٹی کمشنر نے حکم دیا کہ کسی تھانے میں موصوفہ عائشہ زہری کی جانب سے مسروقہ منشیات کو نہ رکھا جائے۔

جس پر اسٹنٹ کمشنر عائشہ زہری کی پریس کانفرنس بھی ریکارڈ کا حصہ ہے۔اس واقعے سے معلوم ہوا کہ بلوچستان میں کوئی بھی آفیسر اپنے حلف کی پاسداری کرتے ہوئے یا ایمانداری کا مظاہرہ کرکے کسی طاقتور مافیاز کے خلاف ایکشن لے گا تو اس آفیسر کی ایمانداری اس کا جرم بن جائے گا اور وہ اپنے کیئے ہوئے ایمانداری کو بطورگناہ سمجھ کر اس کی سزا بھگتنے کیلئے ہمہ وقت تیار بھی رہے۔ ایسے کارنامے سرانجام دینے پر اپنے تبادلے کیلئے بھی تیار رہے اور اگر کچھ زیادہ مافیاز ناراض ہوئے تو اپنے خلاف انکوائریز تک کا سامنا کرنے کیلئے بھی ذہنی طور پر تیار رہے- اس طرح کرکے ہم کس منہ سے کرپشن اور سفارش کلچر کا خاتمہ کر سکتے ہیں کیا ستر سالوں سے اس طرح کا کھیل کھیل کر بلوچستان کو تباہ کرنے میں کس کا کیا کردار رہا ہے۔

اور کون ہے جو ان منشیات فروشوں کا محافظ بن کر ان کی مدد کر رہا ہے۔کہاں گیا ملک کا قانون، کہاں گئیں عدالتیں جب قانون پر عمل کرو تو انکوائریز کا تمغہ تھما دیا جاتا ہے۔ اگر غیر قانونی اقدام کرو تو حلف اور ضمیر آڑے آتے ہیں اور پھر عدالتیں بھی برہم ہو جاتی ہیں کہ آپ اپنی حلف کی پاسداری کے بجائے غیر قانونی اقدامات کر رہے ہیں۔ اسسٹنٹ کمشنر عائشہ زہری کی کروڑوں روپے کی منشیات پکڑنے کے اقدام پر چیف سیکرٹری اپنے آفیسر اور ایماندار خاتون کی سپورٹ کرتا،انہیں ایوارڈ سے نوازتا بلکہ الٹا چیف سیکرٹری نے بھی ان مافیاز کی خاطر عائشہ زہری کو شوکاز نوٹس جاری کر دیا کہ آپ نے منشیات کے اسمگلرز کے خلاف اس طرح کا آپریشن کیوں کیا؟

بلوچستان جیسے صوبے میں جہاں کرپشن، سفارش کلچر اور سیاسی اپروچ عام ہو کیا اس طرح کے ایماندار آفیسران کی جواب طلبی کرنے پر کوئی بھی آفیسر آئندہ کوئی بہتر انداز میں میرٹ پر اپنے فرائض سرانجام دے سکے گا، کیا کوئی آفیسر آئندہ کسی خطرناک مافیاز کی سمگلنگ کی روک تھام اور منشیات پکڑنے کی کوشش کرے گا، بالکل نہیں بلکہ وہ اس سوچ پر کہ کہیں عائشہ زہری کی طرح مافیاز مجھے بھی زیر عتاب نہ لائیں۔ کیا اس طرح کے اقدامات سے بلوچستان منشیات فروشوں کی جنت نہیں بنے گا کیا وہ اب آزادانہ طور پر صوبہ بھر میں بلا روک وٹوک منشیات کی منتقلی نہ کر سکیں گے،کیا صوبے میں قانون اور ریاست سے بھی زیادہ طاقتور منشیات فروش مافیاز ہیں جن کے سامنے تمام طاقتور طبقات تک دم ہلاتے ہیں۔

بلوچستان ملک کا واحد بدقسمت صوبہ ہے جہاں ایمانداری اب گالی بن چکی ہے ایماندار آفیسر کو سماج میں بدتمیز,بات نہ ماننے والا پاگل کہا جا رہا ہو جہاں ایمانداری کو لوگ اچھا نہ سمجھتے ہوں کیا اس طرح کے عمل میں معاشرتی بہتری کی گنجائش ہو سکتی ہے۔ اس کرپٹ اور فرسودہ نظام کو سپورٹ کرنے والوں کے خلاف ریاست کی آنکھیں کیوں بند ہیں کیا یہ ریاستی اداروں،پولیس،لیویز کی ناک کے نیچے یا ان کی آنکھوں سے اوجھل ہو رہا ہے یا پھر قانون جب خاموش ہوگا تو پھر صوبے میں قانون کس چیز کا نام ہے اس طرح کے عمل میں عوام کو قانون کیا تحفظ دے گا، کیا قانون صوبے میں صرف غریبوں کیلئے ہی بنایا گیا ہے کیا قانون طاقتور کی رکھیل بن چکی ہے۔ یہاں تو یہی ثابت ہو رہا ہے کہ قانون طاقتور مافیاز کے آگے مکڑی کا جالا ہے جہاں طاقتور بلا روک ٹوک کچھ کرے۔

کیا یہ تضاد معاشرتی ابتری اور تباہی کا بیش خیمہ ثابت نہیں ہو سکے گا کیا اس طرح کی عدم مساوات معاشرتی بگاڑ کی بنیاد نہیں بنے گا کیا اس طرح کے ماحول میں کوئی بھی ایمانداری سے اپنے فرائض سرانجام دے گا۔ اب وقت آگیا ہے کہ بلوچستان پر توجہ دی جائے، صوبے میں “مال بناؤ” والا فارمولا کو اب ختم کرنا چاہیئے عوام کے معیار زندگی کو بہتر بنانے کیلئے اور صوبے کی ترقی کیلئے ایسے ایماندار آفیسران کی حوصلہ افزائی کرنی ہوگی بصورت دیگر ہمارا معاشرہ تباہی ی جانب گامزن ہوگا جہاں طاقتور مافیاز ایسے ایماندار آفیسران اور عوام کو نوچ لیں گے جن کا کوئی کچھ نہ بگاڑسکے گا۔

کیونکہ قانون ان کی جیب میں ہوتا ہے۔ اب وقت ہے کہ ایماندار آفیسران کی حوصلہ افزائی کی جائے، ریاست مدینہ کو نعرے پر عملی جامہ پہنایا جائے سزا وار کو سزا اور قابل کو ایوارڈ دیا جائے۔ جہاں انصاف نہ ہوگا جہاں غلط کو غلط اور صحیح کو صحیح نہیں کہا جائے گا وہاں معاشرے تباہی کا منظر پیش کرتے ہیں، ایسے منظر صوبے کی زوال کا سبب بنتے ہیں۔اب وقت ہے کہ انصاف،میرٹ اور گڈ گورننس پر توجہ دی جائے تاکہ بلوچستان کی محرومیوں اور پسماندگی کا خاتمہ ہو اور قانون پر سب کا اعتماد بحال ہو۔