پتہ نہیں کیوں میرے دل میں یہ کھٹکا لگا رہتا ہے کہ بلوچستان میں حکومت نام کی کوئی چیز سرے سے ہے ہی نہیں،بہ ظاہر حکومت نام کی کوئی چیز ضرور موجود ہے لیکن یہ واقعی عوامی حکومت ہے۔ابراہیم لنکن نے کہا تھا کہ”عوام کی حکومت،عوام کے ذریعے، عوام کے لیے“ تب بات سمجھ میں آتی ہے کہ حکومت کیوں نہیں ہے کیونکہ جب عوام کے ذریعے حکومتیں منتخب نہیں ہوتی ہیں تو عوام ان کا درد سر کیوں؟ ایک پرانا مقولہ ہے کہ ”محبت اور جنگ میں ہر چیز جائز ہے“ تو مطلب یہ ہوا کہ ہم حالات جنگ میں ہیں تو یہ حکومت بھی جیسے تیسے لنگڑی لولی ہے۔
پھر یقیناً جائز بھی ہوگی مگر دل پھر بھی نہیں مانتا کیونکہ حکومت عوام کی سہولت، بہتری، فلاح و بہبود، تعلیم،صحت،ذرائع آب نوشی، امن و امان،چین سکون و راحت کے لئے ہے تو پھر ہمیں یہ چیزیں کیوں نہیں مل رہی ہیں۔نہ روزگار ہے نہ کاروبار ہے مہنگائی ساتویں آسمان کو چھو رہی ہے قتل غارت گری عام ہے منشیات کا دھندا اپنے عروج پر ہے، بچے،جوان، بوڑھے، خواتین اس آگ میں جھلس رہے ہیں۔
امن امان ایک خواب بن کر رہ گیا ہے اور تو اور سابق اسسٹنٹ کمشنر دالبندین بی بی عائشہ زہری نے منشیات کا بڑا کیمپ پکڑا بجائے دادو تحسین کے ان کی کارکردگی کو سراہا جاتا، انھیں اپ گریڈ کیا جاتا، بہادری اور ان کی شجاحت پر ان کی حوصلہ افزائی کی جاتی، الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کے مصداق انھیں اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کردیا گیا کہ آپ نے یہ منشیات پکڑنے کی جرات کیوں کی اور ایک کرپٹ نا اہل ڈی سی کے خلاف پریس کانفرنس کرکے درپردہ حقائق کو طشت از بام کیوں کیا؟
ڈی سی کا فون کرکے پولیس آفیسر کو کیس درج نہ کرنے پر اظہار وجوہ کا نوٹس تو ڈی سی کو جاری ہونا چاہیے تھا کہ اس نے ایسا کیوں کیا لیکن یہاں گنگا الٹی بہہ رہی ہے، سو بہنے دو، تمھیں کیا۔