پرانے زمانے میں انسان تعلیم کے حصول کے لیے بہت محنت و مشقت کرتے تھے اس زمانے میں حصول تعلیم میں بہت اسباب مانع تھے۔ جیسے تعلیمی اداروں کی قلت، اساتذہ کی عدم موجودگی، زیادہ غربت اور ذرائع سفر کی عدم دستیابی شامل تھی۔ان ساری رکاوٹوں کے باوجود قدیم زمانے میں متقدمین علماء اور سائنسدانوں نے امت کے لیے بہت کارنامے سرانجام دیئے۔جو آج ہم ان کو بطور فخر یاد کرتے ہیں۔موجودہ ترقی ان قدیم علماء،فلاسفر اور سائنسدانوں کی مرہون منت ہے جو ہمیں ان سے وراثت میں ملی ہے۔ انہوں نے شب و روز محنت کرکے امت کے لیے احادیث، فقہ، سیرت، تفسیر، تاریخ، سائنس اور فلسفہ مدون کیے۔ ان میں چند کے اسمائے گرامی یہ ہیں۔
فقہ میں امام ابو حنیفہ، امام شافعی، امام مالک، امام احمد بن حنبل،احادیث میں محمدبن اسمعیل البخاری، امام مسلم، امام ترمذی، امام ابوداؤد، امام نسائی اورابن ماجہ۔اس طرح امام غزالی،امام فخرالدین الرزی، ابن خلدون، ابن بطوطہ نے ضغیم کتابیں تصنیف کیں۔ علم طب اور سائنس میں بھی بڑے آئمہ آئے ہیں جیسے بوعلی سینا نے القانون فی طب نامی کتاب تحریر نہ کی ہوتی تو شاید آج طب نے اتنا ترقی نہیں کیا ہوتا۔ جابر بن حیان نے علم کیمیاء کے بارے میں کتابیں لکھیں۔
آج کی دنیا میں سائنسی ایجادات کی وجہ سے ہر چیز میں انقلاب آیا ہے، زمانے کی گردش اور جدید سائنس کی وجہ سے اشیاء کی شکل وصورت تبدیل ہو گئے ہیں۔آج جدید سائنس کے عجیب و غریب ایجادات نے انسانی زندگی میں کافی آسائش وآسانیاں پیدا کی ہیں اس طرح اس نے حصول تعلیم بھی کافی آسان بنا دیا ہے۔آج دنیا میں تعلیمی اداروں کی کثرت، وسائل کی زیادت، اور مال کی زیادت موجود ہیں ان کے باوجود کوئی بھی انسان حصول علم وتعلیم میں سستی وکاہلی کا مظاہرہ کرے تو وہ ان کے لیے بدنصیبی ہوگی۔آج کمپیوٹر، موبائل،انٹرنیٹ اور دیگر الیکٹرانک ڈیجیٹل آلات نے انسانی زندگی پر بہت مثبت اثرات مرتب کی ہیں جو شخص ان کا استعمال اچھے و مثبت سرگرمیوں کے لیے کرتاہے تو وہ بہت مفید اور کارآمد ہیں بعض افراد موبائل فون منفی سرگرمیوں کے لیے استعمال کر رہے ہیں جیسے سوشل میڈیا کا فضول استعمال، فحاشی وعریانی میں اپنے اوقات صرف کر رہے ہیں۔
دوسری طرف موبائل اور کمپیوٹر کے فوائد بہت زیادہ ہیں۔جدید ذرائع تعلیم کے لیے ان کا استعمال بہت کار آمد ہے۔ کمپیوٹر اور موبائل میں ہم ہزاروں کی تعداد میں کتابیں اور مختلف قسم کے ڈکشنریز ڈال کر اس سے بآسانی استفادہ کرسکتے ہیں۔انٹرنیٹ کے ذریعے سے ہم دنیا کے کونے کونے آن لائن لائبریریوں میں مطالعہ کرسکتے ہیں۔آج سے کئی سال پہلے پوری دنیامیں آن لائن ذریعہ تعلیم شروع ہو چکی ہے۔لیکن بدقسمتی سے ہم ابھی تک اس سے محروم ہیں، انفرادی طور پر یہ ذریعہ بعض اساتذہ اور طلباء استعمال کر رہے ہیں لیکن کوئی بھی گورنمنٹ نے ابھی تک اس کے لیے باضابطہ طورپر کوئی خاص کام نہیں کیا ہے۔ جب کورونا وائرس کی وجہ سے تمام تعلیمی ادارے بند ہو ئے، طلباء اور اساتذہ طویل تعطیلات پر اپنے گھروں میں محبوس ہیں۔ تو اس وجہ سے تمام طلباء کے اوقات ضائع ہو رہے ہیں اور حکومت کی بروقت واضح پالیساں نہ بنانے کی وجہ سے ہر ادارہ ناکامی کی طرف گامزن ہوچکا ہے۔
بعض اداروں مختلف اجلاسوں میں آن لائن ذریعہ تعلیم زیر بحث رہا لیکن اس میں مخصوص افراد کی طرف سے یہ مخالفت کی گئی کہ زیادہ طلباء غریب ہیں وہ موبائل خرید نہیں سکتے، لحاظ آن لائن نظام تعلیم شروع نہ کیا جائے۔ لیکن ان لوگ کو حقائق کا صحیح ادراک نہیں،کالجز اوریونیورسٹیوں میں نوے فیصد طلباء کے ساتھ اعلیٰ قسم کے موبائل موجود ہیں۔ طلباء کے والدین نے محنت مشقت کرکے اپنے بچوں کو تعلیم کے بہتری کے لیے موبائل خریدکر دئیے ہیں۔ اور جو طلباء انتہائی غریب ہیں تو حکومت کو چاہیے ان کو موبائل فراہم کرے۔اساتذہ آن لائن لیکچر اپنے شاگردوں کو مختلف قسم کے سافٹ ویئر اپلیکشن کے ذریعے دے سکتے ہیں۔ جیسے وٹس ایپ، فیس بک،سکائپ اور زوم سے دیے جاتے ہیں۔
اس میں سب سے بہتر اور ہر لحاظ سے پورا اپلیکیشن زوم ہے اس میں استاد اور شاگرد ایک دوسرے کے ساتھ اپنے موبائل کے سکرین، تصاویر،ویڈیو، رائٹنگ بورڈ سوال،جواب لکھنے و بولنے سے لائیو طریقے سے ہوتے ہیں۔ اس میں سارا لیکچر ریکارڈ بھی ہو سکتا ہے جو طالب علم کسی عذر کی وجہ سے گروپ کے کلاس سے غیر حاضر رہا تو ٹیچر ریکارڈ کیا ہوا لیکچر ای میل یا وٹس ایپ کے ذریعے سے بھیج سکتے ہیں۔ طلباء ایک لیکچر یاد کرنے کے لیے وہ بار بار سن بھی سکتے ہیں۔یہ سارے طریقے بہت آسان ہیں تاہم جن اساتذہ و طلباء کو اس میں کوئی مشکلات ہو تو اپنے ادارے کی طرف سے ماہرین اساتذہ کی طرف سے ان کو ٹریننگ دیا جائے تاکہ اس سے وہ سمجھ جائے۔ امید ہے حکومتی اہلکار یہ کالم پڑھ کر تمام اداروں میں آن لائن نظام تعلیم فی الفور رائج کریں گے تاکہ طلباء کے قیمتی اوقات ضائع ہونے سے بچ جائیں۔