|

وقتِ اشاعت :   September 19 – 2014

وزیراعلیٰ ڈاکٹر مالک بلوچ نے کہا ہے کہ ان کی حکومت صوبے میں چھوٹی چھوٹی صنعتوں اور چھوٹے چھوٹے کاروباری اداروں کے قیام کی حوصلہ افزائی کرے گی ۔ ایک وفد سے باتیں کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ اس صوبے میں ترقی کا عمل تیز تر ہوگا اور روزگار کے ذرائع لوگوں کو فراہم ہوں گے۔ اندازہ ہے کہ ملک کے اندر اسی فیصد لو گ چھوٹی چھوٹی صنعتوں اور چھوٹے کاروباری اداروں سے منسلک ہیں زراعت اور گلہ بانی کے بعد یہ دونوں سیکٹر روزگار کی فراہمی کے اہم ترین ذرائع ہیں چونکہ بلوچستان میں سرمایہ کاری CAPTIAL FORMATIONکا عمل نہ ہونے کے برابرہے اس لئے لوگ اپناسرمایہ چھوٹے چھوٹے کاروباری اداروں پر لگا رہے ہیں ۔ حکومت کی جانب سے اس بات پر کوئی توجہ نہیں دی جارہی کہ ملک کے اندر صنعت اور تجارت کو ترقی دی جائے اور لوگوں کو زیادہ سے زیادہ روزگار کے مواقع فراہم کیے جائیں۔ بلوچستان میں بنک سرمایہ کاری کے لیے کوئی مدد فراہم نہیں کررہے بلکہ تمام بنک بلوچستان میں دولت جمع کرنے یا Collection Booths ہیں جو روپیہ بلوچستان میں جمع کرتے ہیں اور سرمایہ کاری یا قرضہ دوسرے صوبوں میں فراہم کرتے ہیں ۔ اس طرح سے قومی اور غیر قومی بنک بلوچستان کی پسماندگی کے برابر کے ذمہ دار ہیں اور سرمایہ بلوچستان سے منتقل کرنے میں ملوث ہیں ۔ اس طرح سے بلوچستان میں سرمایہ کاری صفر کے برابر ہے ۔یہ لوگوں کی ذاتی دلچسپی ہے جو اپنی چھوٹی چھوٹی رقوم سرمایہ کاری میں لگاتے ہیں بنکوں اور حکومت کا اس میں کوئی کردار نہیں ہے ۔ آج کل صوبائی حکومت چالیس ارب روپے کے سالانہ ترقیاتی پروگرام پر عمل کررہی ہے ۔ مگر ان ترقیاتی اسکیموں سے کسی ایک آدمی کو روزگار نہیں ملتااور نہ صوبائی حکومت کی آمدنی میں اضافہ ہوتا ہے ۔ ہر سال حکومت بلوچستان سالانہ ترقیاتی پروگرام کے نام سے چالیس ارب روپے ضائع کررہی ہے ۔ اس سے بہتر تو وہ چھوٹے کاروباری اور تجارتی ادارے ہیں جو چند ایک لوگوں کو طویل مدتی ملازمت فراہم کرتے ہیں ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ پہلے تو حکومت سالانہ ترقیاتی پروگرام اور ایم پی اے حضرات کی ذاتی اسکیموں پر سرمایہ کاری بند کرے اور طویل مدتی ترقیاتی پروگرام خصوصاً بیس سالہ ترقیاتی پروگرام شروع کرے تا کہ طویل مدت میں بلوچستان کی معاشی ترقی کو یقینی بنایا جا سکے ساتھ ہی چھوٹے کاروباری اور صنعتی اداروں کی ہمت افزائی اس طرح کرے کہ وہ بنکوں کو مجبور کرے کہ مقامی لوگوں کو قرضے کی سہولیات فراہم ہوں بلکہ اس کے ساتھ انکی رہنمائی بھی کی جائے ۔ اگر کسی ایک مالی سال میں ایک ہزار چھوٹے تجارتی اور صنعتی اداروں کی سرپرستی کی جائے تو سالانہ کئی لاکھ لوگوں کو روزگار مل سکتا ہے ۔ اس سے بے روزگاری ‘ غربت کا خاتمہ ہوسکتا ہے ۔ جب کہ پوری صوبائی حکومت سال میں صرف چند ہزار ملازمتیں فراہم کرتی ہے ان میں وزراء اکثر ملازمتوں کو فروخت کرتے ہیں گزشتہ کئی دہائیوں میں یہی کچھ ہوا۔