|

وقتِ اشاعت :   May 29 – 2020

کورونا وائرس نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور اب تک کی اطلاعات کے مطابق لاکھوں افراد کورونا وائرس سے ہلاک اور متاثر ہوئے ہیں کورونا وائرس نے ترقی یافتہ دنیا کو بھی ہلا کر رکھ دیا ہے کورونا وائرس سب سے زیادہ یورپ اور امریکہ کیلئے تباہ کن ثابت ہوئی ہے اور اس خطرناک وائرس کی بدولت عالمی دنیا اور اسٹاک مارکیٹس کریش کر گئیں۔ عالمی معیشت بھی ہچکولے کھا رہی ہے وہاں ترقی پذیر ممالک بھی شدید متاثر ہوئے ہیں اور مزید ہوتے جا رہے ہیں اور ساتھ ہی لاک ڈاؤن فارمولے نے رہی سہی کسر نکال دی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق کورونا وائرس سے لاک ڈاؤن کے باعث جہاں کورونا کو کنٹرول کرنے کا فارمولا سمجھا جا رہا تھا اسی لاک ڈاؤن سے غربت کی شرح میں بھی بے تحاشا اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

اور غربت کے باعث ابھی سے لوگوں کی خودکشیاں کرنے کی اطلاعات مل رہی ہیں۔ لاک ڈاؤن کی حمایت امیر طبقات سمیت سرکاری ملازمت پیشہ طبقہ کے سوائے باقی تمام کاروباری، سماجی روزانہ اجرت کرنے والے مزدور پیشہ افراد پرائیویٹ سکولز و دیگر شدید مخالفت کر رہے ہیں وہاں ملک بھر میں تجارت اور کاروبار نہ ہونے کے باعث مذکورہ طبقات نان شبینہ کا بھی محتاج ہو گئے ہیں۔کورونا وائرس ایک خطرناک مرض ضرور ہے اور اس سے بچنے کیلئے احتیاط بھی انتہائی ضروری ہے تاہم اس مرض کے نام پر لاک ڈاؤن کرکے معیشت اور عوام کو نان نفقہ کا محتاج بنانا بھی دانشمندی نہیں۔کورونا وائرس میں مبتلا مریضوں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے وہاں ٹیسٹنگ نتائج پر بھی عوام حیران ہو رہے ہیں سندھ بلوچستان سمیت ملک کے دیگر شہروں سے سرکاری لیبارٹریز میں ٹیسٹ مثبت آنے کے بعد پرائیویٹ سطح پر وہی ٹیسٹ نیگیٹو آ رہے ہیں جس پر شکوک و شبہات جنم لے رہے ہیں اور عوام کورونا وائرس کو اب مشکوک سمجھ رہے ہیں۔

تاہم جہاں کورونا وائرس خطرناک عالمی وباء کے طور پر مشہور ہوئی ہے اور دنیا کو ہلا کر رکھ دیاہے وہاں بلوچستان کیلئے یہ ایک خطرناک مرض کے بجائے ایک خیر خواہ اور رحمت کا فرشتہ ثابت ہوئی ہے بلوچستان ملک کا واحد بدقسمت صوبہ ہے جہاں صرف چار قومی شاہراہیں ہیں جوکہ سنگل ہیں ان شاہراہوں پر ہمہ وقت موت کا رقص جاری و ساری رہتا ہے میرے خیال میں بلوچستان ملک کاواحد صوبہ ہے جہاں کوئی بھی شاہراہ ڈبل یا دو رویہ نہیں جس کے باعث بلوچستان میں روڈ حادثات کی شرح پورے پاکستان میں سب سے زیادہ ہے اور روزانہ روڈ حادثات میں قیمتی جانیں ضائع ہو رہی ہیں کبھی کوئی مسافر کوچ مکمل طور پر جل کر خاکستر ہو جاتی ہے تو کبھی کوئی کوچ الٹنے سے تمام مسافر جاں بحق ہو جاتے ہیں اس طرح کے بیسیوں واقعات صوبے کی قاتل شاہراہوں پر ہو رہے ہیں۔

حادثات میں جانوں کی ضیاع پر نہ تو وفاقی حکومت ٹس سے مس ہو رہی ہے اور نہ ہی صوبائی حکومت اس اہم ایشو پر خاطر خواہ توجہ دے رہی ہے۔بلوچستان میں روڈ حادثات میں جتنی ہلاکتیں روز ہوتی ہیں اتنی ہلاکتیں پورے تین ماہ میں کورونا وائرس سے بھی نہیں ہوئی ہیں تاہم کورونا وائرس بلوچستان کیلئے اس لئے بھی خوش بختی کا موجب بن گیا ہے کہ حکومت نے لاک ڈاؤن کے ساتھ ساتھ پبلک ٹرانسپورٹ پر بھی پابندی لگائی ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ کی بندش سے جہاں صوبے میں عوام کے آمدورفت کیلئے مشکلات ضرور پیدا ہوئی ہیں وہاں صوبے بھر میں ٹرانسپورٹ کی بندش کے باعث روزانہ ہونے والے حادثات میں بھی خاطر خواہ کمی واقع ہوئی ہے صوبے میں حادثات کی کمی یقینا ٹرانسپورٹ کی سرکاری سطح پر بندش کے باعث ہوئی ہے۔

وہاں اس بندش سے صوبے کے قاتل شاہراہوں نے انسانی جانوں کا خون چوسنے سے محروم اور ان شاہراہوں پر خون ناحق کا رقص بھی تھم چکا ہے۔ ان حادثات میں کمی کے باعث صوبے میں شرح اموات میں بھی خاطر خواہ اور ریکارڈ کمی ہوئی ہے یقینا کورونا وائرس اسی وجہ سے بلوچستان جیسے پسماندہ صوبے کیلئے زحمت کے بجائے رحمت ثابت ہوئی ہے کورونا وائرس سے اب تک 80 سے زائد اموات ہوئی ہیں یہ اموات تین ماہ سے زائد عرصہ میں صوبے میں ہلاکتوں کی کم ترین شرح ہے اگر بلوچستان کے روڈ حادثات کا ڈیٹا نکالا جائے اور ان پر تجزیہ کیا جائے کہ کورونا سے زیادہ ہلاکتیں ہوئی ہیں یا پھر صوبے میں زیادہ ہلاکتیں روڈ حادثات سے ہوتی تھی یا یوں کہا جائے کہ جتنے نقصان دہشت گردی کے واقعات سے ہوئی ہو گی اس سے زیادہ روڈ حادثات میں جانی نقصان ہوا ہے۔

بلوچستان ملک کا واحد صوبہ ہے جہاں نیشنل ہائی وے اتھارٹی کوئی خاص توجہ نہیں دے رہی اور نہ ہی ہمارے صوبے پر وفاق خاطر خواہ توجہ دے رہی ہے۔ وفاق اور این ایچ اے کیونکر توجہ دے ہمارے بلوچستان کے وفاقی و صوبائی منسٹرز، سینٹرز،ایم این ایز، وزیر اعلیٰ،گورنر نے کبھی بھی اس مسئلے پر لب کشائی نہیں کی ہے سلام ہے بلوچستان کے ایم این ایز اور سینٹرز کو جنہوں نے آج تک بلوچستان کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک پر کبھی کسی کی توجہ دلائی ہے اور نہ ہی صوبے میں سڑکوں کو دو رویہ کرنے کی کبھی بات کی ہو ہاں انہوں نے اپنے انفرادی مسائل کیلئے ضرور وزیر اعظم سے مطالبات کرتے ہونگے لیکن کبھی بھی بلوچستان کے صرف ان چار شاہراہوں کے لئے کبھی کسی نے بھی کوئی آواز بلند کی ہو لیکن افسوس ہے کہ وزیر اعلیٰ بلوچستان نے بھی اس مسئلے پر کبھی وفاق کو توجہ دلایا تک نہیں ہے۔

اور نہ ہی این ایچ اے کے چیئرمین کو کبھی بلوچستان اسمبلی میں طلب کرکے روڈ حادثات کے بڑھتے ہوئے واقعات سے آگاہ کیا ہے۔یقینا بلوچستان کے عوام سب سے زیادہ قصور وار ہیں کہ وہ ایسے نمائندے منتخب کرتے ہیں جو نسل در نسل منتخب ہونے کے باوجود صوبے کی ترقی کیلئے آج تک کوئی خاص رول ادا کیا ہو یا کبھی کسی نے قومی اسمبلی میں توجہ دلاؤ نوٹس یا قرادار لایا ہو یا کبھی کسی ایم این اے نے صوبے میں بڑھتے ہوئے روڈ حادثات پر احتجاج یا واک آوٹ کیا ہو جب صوبے کی نمائندے ایسے افراد اور نمائندوں کا انتخاب کرتے ہوں گے تو پھر وفاق سے کیونکر گلہ کیا جائے کیوں کسی دوسرے کو قصور وار قرار دیا جائے کیا بلوچستان کی ترقی اور صوبے کے حقوق اور مسائل کے حل ان ایم این ایز اور منسٹرز کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔ کیا وہ صوبے میں حق نمائندگی کو بہتر انداز میں ادا کر رہے ہیں۔ یہ قارئین کرام ہی بہتر بتا سکیں گے یا پھر بلوچستان کے لوگ ہی بتائیں گے کہ ان کے نمائندے صوبے کے حقوق کیلئے کتنے سنجیدہ ہیں۔

اور کتنا سیاسی جدوجہد کرتے ہیں اور کہاں کہاں اور کس فورمز پر آواز بلند کرتے ہیں۔اب وقت آگیا ہے کہ بلوچستان کی حکومت خواب غفلت سے بیدار ہو جائے، صوبے کے عوام کی زندگیوں کو محفوظ کرنے کے لئے بلوچستان میں قومی شاہراہوں کو دو رویہ کرنے کیلئے ٹھوس اقدامات اور منصوبہ بندی کاآغاز کرے۔اگر وفاقی حکومت تعاون نہیں کرتا تو ایک سال کی تمام ترقیاتی فنڈز ان شاہراہوں کو ڈبل کرنے کیلئے صرف کیا جائے تاکہ بلوچستان میں روڈ حادثات میں خاطر خواہ کمی ہو۔ لیکن بلوچستان پر اگر ہمارے قومی اور صوبائی ممبران توجہ دے دیتے اور اپنے علاقوں کی حقوق کیلئے جدوجہد اور آواز بلند کرتے تو بلوچستان کا اس طرح حشر نہ ہوتا۔صوبہ اب تک اس طرح پسماندہ اور عدم ترقی کاشکار نہ ہوتا جتنے منصوبے کاغذوں میں مکمل ہو رہے ہیں۔

اورسالانہ ترقیاتی منصوبے کاغذوں کی زینت بن رہے ہیں وہ زمین پر یقینا نظر آتے لیکن بلوچستان کی پسماندگی اور محرومیوں میں جہاں سیاست سفارش کار فرما ہے وہاں دیگر طاقتیں بھی صوبہ کی شاید ترقی نہیں چاہتے۔ اگر صوبے کی پسماندگی کا ذمہ دار سیاسی اشرافیہ ہے وہاں بیوروکریسی سمیت دیگر طبقات بھی اس عمل میں برابر کے شراکت دار ہیں کیونکہ بیورو کریسی حکومت کی ملازمت کے بجائے ان سیاست دانوں کی جی حضوری میں مصروف عمل ہے۔ جبکہ بلوچستان کی پسماندگی کا سب سے زیادہ ذمہ دار نیب کا ادارہ ہے نیب نے آج تک بلوچستان کے کسی منصوبے پر تحقیقات تک نہیں کی ہے اور نہ ہی کسی میگا منصوبے میں ہونے والے ناقص کام اور میرٹ کیخلاف کام کے بارے کوئی تحقیقات کی ہے۔ اگر اس طرح کہا جائے کہ نیب کا دائرہ کار بلوچستان میں نہیں ہے تو بجا ہے۔ تاہم اب وقت آگیا ہے کہ بلوچستان کو تجربات کا گھر بنانے کی بجائے اس کی ترقی پر توجہ دی جائے۔

صوبے سے کرپشن اور کمیشن کا خاتمہ کرنا ہوگا تمام منصوبوں میں میرٹ اور معیار کا جائزہ لینا ہوگا، سیاست، اثرو رسوخ اور سفارش کلچر کا خاتمہ کرنا ہوگا اور بلوچستان کو پہلی ترجیح میں ترقی کی جانب گامزن کرنے کیلئے ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے اور صوبے کے پسماندگی اور محرومیوں کو ہمیشہ کیلئے ختم کرنا ہوگا۔ بصورت دیگر اس طرح کے تسلسل کے خطرناک سیاسی نتائج بھی برآمد ہوسکتے ہیں جو سیاستدانوں کے مستقبل کیلئے خطرناک ہوسکتے ہیں تاہم ان سب کا انحصار ہماری صوبائی حکومت، اراکین قومی وصوبائی اسمبلی پر منحصر ہے کہ وہ بلوچستان کے حقوق اور مسائل کے حل کیلئے کس طرح سیاسی اور آئینی جدوجہد کر سکتے ہیں اور کس طرح بلوچستان کی پسماندگی کے خاتمے میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں یہ موجودہ حالات اور سیاسی قیادت پرہی منحصر ہوگا-