|

وقتِ اشاعت :   May 31 – 2020

ہمارے ملک پاکستان کی معیشت کا ایک بڑا حصہ زراعت سے آتا ہے جس میں گندم کپاس مکئی اور بہت سی فصلیں شامل ہیں ان کو مختلف قسم کی بیماریاں،کیڑے مکوڑوں اور بجلی کے لوڈشیڈنگ جیسے بڑے مسائل پیش آتے ہیں ان مسائل کے علاوہ اس بار ایسے حشرات حملہ آور ہوئے ہیں جو کم و بیش 20 سال پہلے حملہ کر چکے تھے، ایک بار پھراس آفت کا نازل ہونا ملک کے لیے بڑے خطرے سے کم نہیں پہلے سے کرونا جیسی وبائی مرض پورے ملک میں پھیلی ہوئی ہے۔ زراعت سے ہماری جی ڈی پی کا تقریباً 22 فیصد حصہ آتا ہے اس کے علاوہ زراعت 44 فیصد آبادی کو روزگار فراہم کرتا ہے۔

ٹڈی دل کا ہمارے ملک کی زراعت پر وار زمینداروں اور ملک کی معیشت کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہوگا اگر انھیں روکنے میں تاخیر اختیار کی گئی تو اقوام متحدہ کے ادارہ برائے زراعت اور خوراک ایف اے او کے مطابق ایک اوسط درجے کا جھنڈ اتنی فصلیں تباہ کر سکتا ہے جو ڈھائی ہزار افراد کے لیے سال بھر کے لیے کافی ہو۔ان کے مطابق دو برس قبل جنوبی عربی جزیرہ نما علاقے میں نمی والے سازگار حالات کی وجہ سے ٹڈیوں کی تین نسلوں کی افزائش ہوئی اور کسی کو اس کا علم نہ ہو سکا۔ اقوام متحدہ کے ادارے برائے زراعت اور خوراک ایف اے او کے مطابق ٹڈیوں کی افزائش اتنی تیزی سے ہورہی ہے۔

کہ شاید جون تک ان کی تعداد میں پانچ سو گناہ اضافہ ہو جائے گااور ویسے بھی مون سون موسم میں بارشوں سے ان میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ ایک مادہ ٹڈی ایک وقت میں 80 بچے دیتی ہے اس طرح تین بار انڈے دیتی ہے اور پھر اس کی موت واقعی ہوتی ہے۔ ٹڈی دل روزانہ 100سے 150 کلومیٹر یا اس سے بھی زائد سفر کرسکتے ہیں۔ ابھی تک تقریباً تیس ممالک ان سے متاثر ہوئے ہیں اقوام متحدہ کے ادارہ فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن کے مطابق یہ ٹڈیاں ایتھوپیا،صومالیہ، یمن،سعودی عرب اور پھر ایران سے ہوتی ہوئی بلوچستان کے ضلع چاغی اور پورے بلوچستان ہرنائی،زیارت،خانوزئی،مرغہ،سبی،گوادر وغیرہ سمیت سندھ میں سکھر، عمرکوٹ، خیرپور تھر وغیرہ اور پنجاب میں ساہیوال، وہاڑی سمیت متعدد شہروں تک جا پہنچی ہیں۔

ایک طرف تو کرونا تو دوسری طرف ٹڈیوں کا حملہ حکومت کے لیے بڑی مشکلیں کھڑی کررہی ہے۔ ٹڈیوں کو روکنے کے لیے کیڑے مار ادویات کا اسپرے کرنے والی ایک جہاز 12 جنوری کو چولستان کے قریب کریش ہوا جس کے نتیجے میں پائلٹ اور ایک ایوی ایشن انجینئر جاں بحق ہوئے تھے۔ چیئرمین این ڈی ایم اے کا کہنا ہے کہ بوہنگ کمپنی کے لیے مکینکل پرزے بنانے والی کراچی کے کمپنی سے پندرہ فضائی مشینوں کا معاہدہ ہوا ہے جو تسلی بخش ہوئیں تو دو سو اور حاصل کی جائینگی۔بطخ اور مرغیاں ٹڈی دل کے لیے موثر ثابت ہوتے ہیں روزانہ کی بنیاد پر ایک مرغی تقریباً 70 ٹڈی دل کو اپنی خوراک بناتی ہے۔

جبکہ بطخ اس سے دو یا تین گناہ زیادہ کو اپنی خوراک بنا لیتی ہے جس کو چین سے حاصل کی جائے گا۔سندھ پنجاب اور بلوچستان میں ٹڈیوں کا راج ہے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو اس مسئلہپر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔زمینداروں کے نقصانات کا ازالہ کرنے کے لیے ایک بڑے پیکیج کا اعلان کرنا چاہیے تاکہ غریب لوگ جن کا گزر بسر زراعت سے وابستہ ہے جسے ٹڈیوں نے تباہ کیا ہے انکا گزربسرہو سکے۔