ایک بڑی تعداد ہے ایسے لوگوں کی جو کہتے ہیں ہمارا بچہ دوستوں میں رہ کر بگڑ گیا ہے، باہر کے ماحول نے اسے بگاڑ دیا ہے، بچہ جھوٹ بولے تو دوستوں نے سکھایا، بدتمیزی کرے تو دوستوں نے سکھایا، بچہ گالی دے تو دوستوں نے سکھایا ہے یقین جانیں یہ سوچ ہی غلط ہے،۔درحقیقت بچے کے بگڑنے کی وجہ والدین کے اپنے فرائض کی عدم ادائیگی ہے، شروع سے ہی بچے کی تربیت کو اہم فریضہ سمجھا جاتا، بچے کی پرورش کو اولین ترجیح دی جاتی تو یہ بچہ دوستوں میں جا کر کبھی خراب نہیں ہوتا بلکہ دوستوں کی اصلاح کا سبب بنتا،۔بچہ پیدا ہوتے ہی دوستوں میں نہیں جا بیٹھتا، پیدا ہوتے ہی اسکے دوست اسے لینے نہیں آجاتے، پیدا ہوتے ہی آوارہ گردی شروع نہیں کرتا، پیدا ہوتے ہی سگریٹ نہیں پکڑتا، کم و بیش شروع کے دس سال تک بچہ مکمل والدین کے ساتھ اٹیچ ہوتا ہے۔
اور یہی وہ دورانیہ ہے جہاں اکثر و بیشتر والدین عدم توجہ کا مظاہرہ کرتے ہیں۔بچہ جب پیدا ہوتا ہے اسکا دل و دماغ بالکل کورا کاغذ ہوتا ہے کہ جو دیکھے گا سنے گا وہ اس پر چھپتا چلا جائے گا، اب ہم نے اس کاغذ پر کچھ نہیں لکھا،زمانہ لکھتا چلا گیا، اگر ہم بچپن میں ہی اپنی تربیت اس کاغذ پر اتار دیتے تو زمانے کو برائیاں اتارنے کے واسطے جگہ ہی نہ ملتی۔جب ماں اور باپ نے اپنی تربیت شروع میں ہی بچے کے اندر اتار دی تو یہ بچہ خراب لوگوں سے مل کر خود کبھی خراب نہیں ہوگا بلکہ خراب لوگوں کے لئے اصلاح کا سبب بنے گا۔
ہمارے معاشرے میں تربیت کے نام پر رسمی جملے دہرائے جاتے ہیں، بیٹا جھوٹ نہیں بولنا بری عادت ہے، بدتمیزی کرنا بری عادت ہے اور یہ رسمی جملے کبھی بچے کے اندر نہیں اترتے بلکہ نہایت ذمہ داری کے ساتھ، غور و فکر کے ساتھ اور دلچسپی سے کی جانے والی تربیت کو بچہ اپنے اندر اتارتا ہے، ہم معاشرہ دیکھ لیں ہر والدین بچے کو رٹے رٹائے جملے سکھاتے ہیں لیکن فائدہ کوئی نہیں، اور اسکی وجہ یہی ہے کہ تربیت واسطے فکرمند نہیں، دلچسپی نہیں، ہاں سیکھ جائے گا، سمجھ جائے گا، ابھی چھوٹا ہے، اور اسی سوچ نے بیڑا غرق کرکے رکھ دیا ہے۔ڈرامے اور فلمیں دیکھتے ہوئے مائیں بچوں کو دودھ پلا رہی ہیں۔
ایک ہاتھ میں بچے کا فیڈر ہے تو دوسرے ہاتھ میں موبائل ہے، ذرا سا بچہ رونے لگ جائے تو ٹی وی کھول کر دے دیں گے، موبائل ہاتھ میں دے دیں گے، اسے کارٹون لگا دیں گے، کوئی موسیقی سن کر بچہ ہاتھ پیر ہلانے لگ جائے تو سارے گھر میں خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے، اب وہ ماں اپنے بچے کی اعلیٰ پرورش کیسے کرسکتی ہے کہ اسکی خود کی زندگی ڈرامے، فلمیں، موسیقی، شاپنگ، گھومنا گھمانا، موبائل فیس بک تک محدود ہو۔ایک نظر باپ کی ذمہ داریوں پر ڈالیں تو بس وہی رسمی معاملات کہ بچے کے خرچے پورے ہو رہے ہیں، ضرورتیات و خواہشات پوری ہو رہی ہیں۔
پورا دن کام میں مصروف، گھر آئے کھانا کھایا، بچے کو ایک راؤنڈ لگوا کر پھر دوستوں میں مصروف اور پھر گھر آکر موبائل میں مصروف، اسی طرح دن پھر ہفتے اور پھر سال گزر جاتے ہیں لہٰذا اس بچے کی تربیت کا جو سب سے اہم دورانیہ تھا وہ والدین نے اپنی ہی مصروفیات، اپنی ہی مستیوں میں ضائع کر دیا۔ بعد میں سر پکڑ کربیٹھے کہ اولاد نافرمان ہے، اولاد بدتمیز ہے، دوستوں نے بگاڑ دیا، ماحول نے خراب کردیا، ارے بھئی ماحول کے ساتھ تو وہ بعد میں جڑا ہے، دوست تو اسکے بعد میں بنے ہیں، اتنے سالوں سے تو وہ آپ ہی کے پاس تھے۔
ماں اور باپ دونوں کو مل کر ذمہ داری کے ساتھ بچے کی تربیت کرنی ہوگی، اپنے آپ کو لگانا ہے، اپنے آپ کو کھپانا ہے، اولاد کی تربیت کے واسطے ماں کی گود سب سے پہلی اور اہم درسگاہ ہے کہ ماں اسے سینے سے لگائے اپنی تربیت بچے میں منتقل کرے، اسے اللہ کی پہچان کروائے، اسے رسول اللہ کی پہچان کروائے، اسے دنیا میں آنے کا مقصد سمجھائے، اسے روز مرہ معاملات کی دعائیں سکھائے، سچ سے محبت، سچ میں عزت، سچ پر فضیلت، اسکے دل میں اتارے، جھوٹ سے نفرت، جھوٹ میں شرمندگی، جھوٹ پر گناہ کا یقین اسکے دل میں اتارے، گالی، غیبت، چغلی اور بری باتوں سے نفرت اسکے دل میں اتارے، رشتہ داروں سے محبت اور حسنِ سلوک اسکے دل میں اتارے، جب ماں کے اندر دین ہوگا، ماں کے اخلاق اچھے ہونگے تو یہاں نسلوں کی نسلیں پروان چڑھیں گی۔
اسی طرح باپ ہے کہ روزانہ بچے کے ساتھ بیٹھ کر کچھ وقت گزارے، روز مرہ کے معاملات کا پوچھے، صحیح غلط کی پہچان کروائے، بڑوں کا ادب، بڑوں کی عزت سمجھائے، غریبوں سے محبت، ضرورت مند کی مدد کا جذبہ اور شوق اسکے اندر پیدا کریں، اسکے سامنے ٹیلیویژن، موبائل،ڈرامے،فلمیں وغیرہ کا استعمال بالکل نہ ہو، اسکے سامنے لڑائی جھگڑے گالم گلوچ شور شرابہ بالکل نہ ہو، بچے کے سامنے سب سے آپ جناب سے بات کریں، بچہ ذرا بڑا ہوجائے تو اسے نماز پر اپنے ساتھ لیکر جائیں، اسے لوگوں سے ملنا جلنا سکھائیں، اچھے کام پر اسکی حوصلہ افزائی ہو، فارغ اوقات میں پاس بٹھا کر رسول اللہ اور صحابہ کرام کے واقعات سنائیں۔
ایسے ماحول سے نکل کر آپ کا شہزادہ جب باہر کی دنیا میں آتا ہے تو کبھی باہر کے لوگوں سے خراب ہوکر نہیں آئے گا بلکہ انکے لئے اصلاح کا سبب بنے گا، انکے لئے خیر کا سبب بنے گا، جہاں جائے گا اپنی اچھائی چھوڑ آئے گا، جہاں جائے گا والدین کا نام چھوڑ کر آئے گا،اور یہ شہزادہ دنیا میں تو والدین کے لئے سربلندی کا باعث بنتا ہی ہے لیکن اپنے اچھے اعمال و کردار کی بدولت والدین کے انتقال کے بعد قبر میں بھی انکے لئے راحت و سکون کا ذریعہ بنے گا۔