بلوچستان و سندھ میں جعلی لوکل و ڈومیسائل کا مسئلہ کئی دہائیوں سے چلتا آرہا ہے۔ اس مسئلہ کو سنجیدگی سے حل کرنے کی کوشش کبھی نہیں کی گئی جسکی وجہ سے ہم نے بہت نقصان اٹھایا۔ ماضی میں جو ہوا اب اسکا ازالہ ہونا چاہئے اور مستقبل میں اس بوگس لوکل/ ڈومیسائل کے مسئلے کو ہمیشہ کیلئے ختم ہونا چائیے۔ سندھ میں جب عوام نے اس مسئلے پر آواز اٹھائی تو حکومت نے اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیا اور سیکرٹری لیول کی کمیٹی بنا کر اسے حل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ یہ مسئلہ کافی عرصے سے میرے ذہن میں تھا کہ اس کے خلاف ایک باقاعدہ مہم شروع کی جائے تاکہ ہماری حکومت و سیاسی جماعتیں اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کریں۔
الحمدللہ 2، 3 دن سے اس مسئلے کو جب میں نے سوشل میڈیا پر اٹھایا تو بلوچستان کے ہر کونے سے لوگ میرے ساتھ ہم آواز ہوگئے اور سوشل میڈیا پر اس مہم کا باقاعدہ آغاز کردیا ہم نے۔ اب آتے ہیں کچھ بنیادی سوالوں کی طرف جن کا جواب بہت ہی ضروری ہے اس مسئلے کو حل کروانے کیلئے۔سب سے پہلے اس بات کو واضح کرنا ضروری ہے کہ لوکل اور ڈومیسائل کیوں دی جاتی ہے اور ان دونوں میں فرق کیا ہے۔ تو اسکا جواب یہ ہے کہ پاکستان ایک فیڈریشن ہے اور یہ فیڈریشن صوبوں اور کچھ قبائلی علاقہ جات کوملا کے بنا ہے۔ آئین کے مطابق فیڈریشن کے تمام اکائیوں کے یکساں حقوق ہیں۔
اس لئے ملک کے انتظامی امور چلانے کیلیے بیوروکریسی و دیگر شعبہ جات میں ہر اکائی کو اسکی آبادی کے حساب سے ملازمتوں میں کوٹہ دیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ہر سال سی ایس ایس کا امتحان کم و بیش 300 پوسٹوں کیلیے لیا جاتا ہے۔ اور سی ایس ایس میں بلوچستان کا 6 فیصد کوٹہ ہے۔ اس حساب سے ہماری سیٹیں 18 بنتی ہیں، ان 18 سیٹوں پر صرف اور صرف وہ لوگ تعینات ہوسکتے ہیں جن کے پاس بلوچستان کا لوکل یا ڈومیسائل ہوگا۔ اسی طرح تعلیمی اداروں میں داخلہ بھی اسی اصول کی بنا ء پر دیا جاتا ہے۔تو اس کوٹہ کا تعین لوکل و ڈومیسائل سے ہوتا ہے کہ جسکا لوکل یا ڈومیسائل جس صوبے سے ہوگا اسے اس صوبے کے کوٹہ سے ملازمت دی جائیگی یا تعلیمی ادارے میں داخلہ۔اب آتے ہیں لوکل اور ڈومیسائل کے فرق کو جاننے کیلئے: لوکل سرٹیفیکیٹ اس شخص کو ملتا ہے۔
جو آباؤ اجداد سے اس صوبے میں رہتا ہو لیکن ڈومیسائل کوئی بھی شخص بنوا سکتا ہے جو کسی صوبے میں کم از کم 3 یا پانچ سال رہ چکا ہے۔ (یہ واضح نہیں ہے کہ 3 سال یا 5 سال رہنے والے کو ڈومیسائل دیا جائیگا) اب سارا مسئلہ یہاں سے شروع ہوتا ہے۔ ڈومیسائل کو بنوانے کے حوالے سے نہ پاکستان کے آئین میں کچھ واضح پالیسی ہے نہ ہمارے صوبے کے پاس جس کی وجہ سے عام عوام کو اپنے آئینی حقوق نہیں مل رہے۔یہ سب واضح ہونے کے بعد اب اس سارے مسئلے کو زیر بحث لاتے ہیں کہ اصل مسئلہ کیا ہے اور بوگس ڈومیسائل کیوں اور کیسے بنتے ہیں۔بلاشبہ یہ ایک بہت ہی گھمبیر مسئلہ ہے۔
اور اس میں بہت سے طاقتور لوگ بھی شامل رہے ہیں اور اب بھی ہیں۔ لیکن مسئلہ جتنا گھمبیر ہے تو اسکے نقصانات بھی اس سے کہیں زیادہ ہیں۔ بلوچستان ایک تو ویسے بھی پاکستان کے تمام صوبوں سے بہت پیچھے ہے۔ اگر خیرات میں دئیے گئے کچھ کوٹہ کی مختص سیٹیں ہیں وہ بھی دوسرے صوبے والے لے جائیں تو ہمارے نوجوانوں کے پاس مایوسی کے علاوہ اور کچھ نہیں بچتا۔ بوگس ڈومیسائل کے خلاف مہم کو شروع کرنے کا مقصد بھی یہی ہے کہ اس ظلم کو اب روکا جائے اور پچھلے ادوار میں جتنے بھی بوگس لوکل و ڈومیسائل بنے ہیں ان سب کی جانچ پڑتال ہو، جو جو افسران یا عملہ اس میں ملوث رہا ہو انہیں قرار واقعی سزا دے کر نشان عبرت بنایا جائے۔ سب سے بڑا مسئلہ اس حوالے سے ڈومیسائل کا ہے۔
پاکستان سٹیزن شپ ایکٹ 1951 اور بعد میں 1973 کے آئین میں بھی ڈومیسائل کے حوالے سے کوئی کلیر پالیسی نہیں ہے کہ ڈومیسائل بنوانے کے کوائف کیا ہونگے، ڈومیسائل بنوانے کی ضرورت کیوں پڑ رہی ہے۔ اس میں مستقل رہائش کو دکھا جانا چاہئے یا نہیں، ڈومیسائل بنوانے والا بلوچستان میں ہی رہیگا یا نہیں۔اور بھی بہت سی چیزیں ہیں جو ابہام کا شکار ہیں۔کسی بھی ڈپٹی کمشنر کے پاس ڈومیسائل اجرا کرنے کے بارے میں مسودہ نہیں کہ ڈومیسائل کس بنیاد پر دیا جائے۔ اسی لاکونا (lacuna) کا فائدہ اٹھا کر دوسرے صوبوں سے آئے ہوے افسران اپنے بچے بچوں اور رشتہ داروں کو بلوچستان کا ڈومیسائل بنا کر دیتے آئے ہیں۔
اور کچھ ہمارے ضمیر فروش لوگ بھی چند پیسوں کی لالچ میں دوسرے صوبوں کے لوگوں کو ڈومیسائل بنا کر دے رہے ہیں۔اب سوال یہ ہے کہ بوگس ڈومیسائل کا مسئلہ حل کیسے ہوگا اور ماضی میں بلوچستان سے جتنے بھی بوگس ڈومیسائل دئیے گئے ہیں، ان سب کو کیسے ٹریس کر کے انکی تصدیق ہونی چائیے۔حال ہی میں سندھ گورنمنٹ نے ایک کمیٹی بنائی ہے جو ہر ضلع جا کر تمام جاری کردہ لوکل و ڈومیسائل کی جانچ پڑتال کر رہی ہے۔ اسی طرز پر بلوچستان حکومت بھی ایک کمیٹی بنا لے اور پچھلے جتنے بھی لوکل خاص کر ڈومیسائل بلوچستان کے ہر ضلع سے جاری ہوئے ہیں انکی جانچ پڑتال کرے۔ اور یہ حکم بھی جاری کرے کہ صوبے بلوچستان کے کوٹے پر وفاق میں جتنے بھی لوگ پوسٹوں پر تعینات ہیں وہ سب ایک مہینے کے اندر اندر اپنے لوکل و ڈومیسائل کی ویریفکیشن کروائیں۔
اس مقررہ وقت میں جن لوگوں نے اپنے لوکل و ڈومیسائل کی تصدیق نہیں کروائی تو انکے لوکل و ڈومیسائل کو ختم کیا جائے اور نوکریوں سے برخاست کیا جائے۔شنید میں آیا ہے کہ سب سے زیادہ بوگس ڈومیسائل سندھ و پنجاب کے بارڈر پر متصل بلوچستان کے ضلع اور کوئٹہ سے جاری ہوئے ہیں تو سب سے پہلے حکومتی کمیٹی ان علاقوں سے تصدیق کا عمل شروع کرے اور جب تک اسمبلی سے بل پاس نہیں ہوتا، پورے بلوچستان میں ڈومیسائل سرٹیفیکیٹ اجراء کرنے کے عمل کو روکا جائے۔ مستقبل میں لوکل اور ڈومیسائل یا پرمیننٹ ریزیڈنشل سرٹیفیکیٹ بنوانے کیلے بلوچستان اسمبلی ایک بل پاس کرکے اس سارے پروسس کو واضح کرے تاکہ کوئی باہر کا بندہ لوکل نہیں بنوا سکے اور اگر ممکن ہو تو ڈومیسائل اجرا کرنا ہی بند کیا جائے۔
صرف اور صرف لوکل اور مستقل رہائشی سرٹیفیکیٹ (پی آر سی) دیا جائے۔چونکہ بوگس ڈومیسائل کا مسئلہ ایک قومی مسئلہ ہے اس کے حل کیلئے تمام سیاسی جماعتوں، طلبہ تنظیموں و سماجی کارکنان کو ایک زبان ہو کر کوشش کرنا ہے۔ جب تک صوبائی اسمبلی میں بل پاس نہیں ہوتا اور بلوچستان حکومت جاری کردہ ڈومیسائل سرٹیفیکیٹس کی جانچ پڑتال کے لیے کمیٹی نہیں بناتی، ہم سب نے مل کر جدوجہد کرنا ہے۔اسکے علاوہ اس مہم کو باقاعدہ ترتیب سے منطقی انجام تک پہنچانے کیلئے صوبائی و ضلعی سطح پر کمیٹیاں بنا کر کام کرنا ہوگا۔ ان کمیٹیوں میں ہر ضلع کے سیاسی، قبائلی، سماجی و طلبہ تنظیموں کے دوستوں کو شامل کیا جائیگا۔ عام عوام سے بھی درخواست ہوگی کہ اگر انکو کسی کے بارے میں معلوم ہے کہ بوگس ڈومیسائل یا لوکل بنوایا ہے۔
یا کسی سرکاری عملے نے بنا کر دیا ہے تو ایسے لوگوں کے بارے میں ہمیں ثبوت کے ساتھ آگاہ کریں، ایسے دوستوں کا نام صیغہ راز میں رکھا جائیگا۔ بلوچستان ہائی کورٹ کا ڈومیسائل کو لیکر ایک فیصلہ بھی موجود ہے، اس کے بارے میں وکلاء سے مشورہ لیا جائیگاسوشل میڈیا پر یہ کیمپیئن اس مسئلے کے حل تک جاری رہے گا اور بہت جلد Twitter پر ایک ٹرینڈ بھی چلا یا جائے گا۔ ضرورت پڑی تو ہم پورے بلوچستان میں سڑکوں پر نکل کر اپنا احتجاج بھی ریکارڈ کروائیں گے۔
یہاں میں یہ بات بھی واضح کرتا چلوں کہ ہماری یہ مہم صرف اور صرف جعلی ڈومیسائل و لوکل سرٹیفیکیٹس کے خلاف ہے۔ بلوچستان میں دہائیوں سے آباد بلوچ، پشتون، و ہزارہ کے علاوہ جو ہمارے سیٹلرز بھائی ہیں، وہ بھی اتنے ہی بلوچستانی ہیں جتنے بلوچ و پشتون ہیں۔ اس مہم کو کسی خاص طبقہ کے خلاف استعمال ہونے نہیں دیا جائیگا۔
Ayaz Ullah Bajoi
بہت ہی عمدہ کارکردگی اوراعلیٰ تحریر جواد ذرّکزئی ۔حقیقتاً یہ ایک سنجیدہ مسلہ ہے اور اس کی ہی وجہ سے ہم نوجوانوں کی حق تلفی ہورہی ہے