|

وقتِ اشاعت :   June 4 – 2020

گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو کلپ جس میں ایک خاتون جو خود کو کرنل کی بیوی بتا رہی ہے ایک پولیس والے کے ساتھ نازیبا طریقے سے محو کلام ہے اور یہ خاتون آپے سے باہر ہوگئی ہے۔ ایک بد مزگی کا ماحول پیدا ہو گیا اور پولیس اس کے سامنے ہیچ ہو گئی۔خاتون جانے پہ بضد اور پولیس والا اسے روکنے پہ بضد۔تلخی اس قدر بڑھ گئی کہ گتھی سلجھ ہی نہ پائی۔اس میں کوئی مغالطہ نہیں غلطی سراسر اس خاتون کی تھی جو قانون کی دھجیاں اڑانے کے درپے تھی یا قانون اس کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتاتھا۔اس کے بعد سوشل میڈیا پہ خاتون کی ایسی درگت ہوئی جس سے جتنا ہو سکا دشنام طرازی اور لغو گوئی کا مظاہرہ کرتا رہا اور پولیس کے ساتھ دلی ہمدردی جتائی جانے لگی اور تعریفوں کے پل باندھے گئے۔خاتون کے اس نازیبا رویے پہ نا چاہتے ہوئے میں نے بھی پولیس کے ساتھ ہمدردی کے دو بول کہہ دئیے کیونکہ اس فورس میں بھلے انسان بھی ہیں۔

اصل مدعا طرازی کرنل کی بیوی کا پولیس کے ساتھ نا زیبا رویہ نہیں بلکہ یہاں خامہ فرسائی کا اصل مقصد پولیس کا عام عوام کے ساتھ رویہ کیسا ہے اس پر ہے۔عمر کوئی انیس بیس کے قریب تھی کسی رشتہ دار کے ساتھ جو میرا ہم عمر تھا سندھ کے کسی شہر کسی کام سے جانا ہوا،دن بھر مصروف رہنے کے بعد شام کو جب واپسی کا ارادہ کیا سڑک کنارے کھڑے دو پولیس والوں نے اشارے سے بلایا،علیک سلیک کے بعد انہوں نے بے تکے سوالات کا سلسلہ شروع کیا اور بار بار کہتے رہے اس سڑک پر گھومنا منع ہے۔ اس بے اصولی بات پر میں نے کہا پھر سڑک کس لیے بنائی گئی ہے۔اس پر وہ مزید سوختہ ہو گئے اور ہمارے ساتھ جو گھریلو سامان تھا اسے بار بار کھنگالنے لگے، حیرت تب ہوئی جب انہوں نے کہا کہ ہمیں اطلاع ملی کہ آپ جیل سے فرار ہو کر آرہے ہیں۔پھر میں نے کہا سر ہم کس کیس میں جیل میں قید تھے اس بات پر وہ ہڑ بڑایا، جب کچھ بن نہ پایا۔انہوں نے براہ راست پیسوں کا مطالبہ کر دیا ہم انھیں بار بار کہتے رہے کہ کس چیز کے پیسے؟ہم نے یقین دہانی کرائی کہ ہم طالب علم ہیں کسی کام سے اس شہر آنا ہوا لیکن ان کے کان پر جوں ہی نہیں رینگی۔ہمیں انہوں نے دھمکانا شروع کر دیا کہ ابھی ہم موبائل بلاتے ہیں۔

آپ لوگوں کو تھانے لے چلتے ہیں۔سورج غروب ہونے کو تھا کافی دیر تک ہم ان کے ساتھ خوامخواہ کی تکرار میں الجھے ہوئے تھے۔پھر میں نے بھی ٹھان لی کہ چلو تھانے ہمارا جو قصور ہے وہ SHO صاحب کو گوش گزار کریں گے اور ویسے بھی اب سورج غروب ہونے کو ہے ہمیں دیر ہو چکی ہے۔یہ سن کر وہ حواس باختہ ہوا کہ پہلا شخص ہے جو خود تھانے چلنے کا کہہ رہا ہے۔آخر میں انہوں نے جو چیزیں ساتھ تھیں کہا کہ یہاں سے کچھ دے دیں۔میں نے کہا حد ہوتی ہے سر۔گھریلو سامان ہم آپ کو دے دیں۔۔ان کی تمام تر کوششیں جب بے سود رہیں انہوں نے ہمیں مجبوراً جانے دیا لیکن کافی دیر ہو چکی تھی اور بڑی مشکل سے آخری گاڑی تک پہنچ پایا اور اپنے شہر کی راہ لیا۔پہلے میں سنتا تھا کہ پولیس بلاوجہ عام عوام کو تنگ کرتی ہے لیکن میں سمجھتا تھا کہ لوگ باتیں بناتے ہیں ایسا نہیں ہے لیکن جب ذاتی تجربے سے گزرا تو شک یقین میں بدل گیا۔یہ واقعہ بتانے کا ہر گز مطلب نہیں کہ میں پولیس کو بدنام کر رہا ہوں بلکہ پولیس کا وہ رویہ جو عام عوام کے ساتھ ہوتا ہے بتانا مقصود ہے۔

گزشتہ کئی دنوں سے عید گاہ محلہ جیکب آباد کے مکین سراپا احتجاج ہیں کہ ان کے پڑوس میں چلنے والا فحاشی کا اڈا بند کروایا جائے لیکن پولیس یہ بات ان سنی کر رہی ہے۔تاسف یہ کہ یہ فحاشی کا اڈا سٹی پولیس تھانہ سے دو تین فرلانگ پہ واقع ہے لیکن پولیس نے جان بوجھ آنکھوں پہ پٹی اور کانوں میں روئی ڈال رکھی ہے اہل علاقہ ایک عرصہ سے اضطراب کی کیفیت سے گزر رہے ہیں لیکن ان کی نہیں سنی جا رہی اور کئی علاقہ مکین یہاں سے اپنے گھر اونے پونے داموں بیچ کر نقل مکانی پہ مجبور ہو گئے ہیں،کئی بار شکایات پر بھی پولیس تماشائی بنی ہوئی ہے۔اگر اہل علاقہ کی داد رسی نہیں ہوئی وہ احتجاج کو مزید سخت کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔اعلیٰ حکام سے گزارش ہے کہ اہل علاقہ کی دادرسی کی جائے اور اس برائی کا قلع قمع کرنے میں ان کا ساتھ دیا جائے۔ایسے نہیں کل اہل علاقہ قانون کو ہاتھ میں لینے پر مجبور ہو جائیں۔پولیس نے سماج میں جو اپنا امیج بنایا ہے۔

وہ اب عوام سے کرنل کی بیوی جیسے رویے کی توقع رکھے۔اس کا یہ ہر گز مطلب نہیں کہ میں اس خاتون کی حمایت کر رہا ہوں جو قانون توڑتی پھرے۔انھوں نے جو کچھ کیا وہ سراسر غلط ہے۔لیکن یہ بھی تو غلط ہے پرانی موٹر سائیکل پر سوار غریب جوڑے کو جو اپنی بیٹی کا علاج کرانے شہر جاتے ہیں بلاوجہ اسے گھنٹوں ٹھہرانا،تنگ کرنا، جب کچھ بن نہ پائے تو غریب شخص کو بیگم کے سامنے گالم گلوچ کرنا۔کیا پولیس کا یہ رویہ قانونی ہے۔بلاوجہ کسی ڈرائیور کو اپنے چھوٹے بیٹے کے سامنے اینٹوں سے زدوکوب کرنا ڈرائیور بیچارہ کاخون میں لت پت ہونا۔ کیا یہ بد مستی کی انتہا نہیں ہے۔یہ سب کچھ کس قانون کے مطابق کیا جا رہا ہے کیا یہ غلط نہیں ہے؟بھری وین میں کسی پیرسن کو چور کہہ کر اتارنا جو بیچارہ عمر کے اس حصے میں جو بمشکل چل پھر سکتا ہے کیا یہ غلط نہیں ہے۔اگر پولیس کا یہی رویہ رہا تو عوام کا پولیس سے اعتماد اٹھ جائے گا۔