بلوچستان کی صوبائی اسمبلی 1972 میں ایک صدارتی حکم نامے کے تحت وجود میں آئی۔اسمبلی کا پہلا اور باقاعدہ اجلاس 2 مئی 1972 کو منعقد ہوا جس میں 21 ارکان (ایک خاتون اور 20 مرد حضرات) نے شرکت کی۔ بلوچستان کی صوبائی اسمبلی نے وجود میں آنے کے بعد سے لیکر اب تک کے اس سفر میں مجموعی طور پر 8 عام انتخابات دیکھے ہیں۔اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بلوچستان اسمبلی کے ارکان کی تعداد بتدریج بڑھ کر 65 ہو چکی ہے۔ اگرچہ ارکان کی تبدیلی کی وجہ سے یہ تعداد گھٹتی اور بڑھتی رہی ہے۔ 1972میں ارکان کی کل تعداد21اور 1977 ء میں 45 تھی جو 1999 میں گھٹ کر 43 ہو گئی۔
آخری مردم شماری کی بناء پر اس کی اراکین میں اضافے کے بعد یہ تعداد 65 ہو گئی جن میں عام نشستوں کی تعداد 51، خواتین کے لیے مختص کردہ 11 نشستیں اور اقلیتوں کے لیے 3 نشستیں شامل ہیں۔آپ کو صوبہ بلوچستان میں گڈ گورننس کی کوئی ایسا مثال نہیں ملے گی جس سے بہتری اور صوبے کی ترقی کیلئے ایک نمونہ ہو۔بلوچستان میں سب سے زیادہ وزارت اعلیٰ کرنے والے قلات ڈویژن اور دوسرے نمبر پر نصیرآباد ڈویژن ہے دونوں ڈویژنز بلوچستان میں پسماندگی کے اعلیٰ نمونے بھی ہیں – بلوچستان شاید واحد صوبہ ہے۔
جہاں ماہرین کے تجربات سے استفادہ کرنے کی بجائے منظور نظر آفیسران کو عہدے اور اختیارات تفویض کئے جاتے ہیں یعنی صوبے کے ہر شعبے میں متعلقہ مہارت اور تجربہ کے برعکس سیاسی سفارش کی بنیاد پر ہی محکمہ کا سربراہ/سیکرٹری مقررہ کیا جاتا ہے جس کی واضح مثال صوبے میں صحت کا محکمہ ہے۔ بلوچستان میں کورونا وائرس سے قبل بلکہ آج تک صوبے میں ریگولر وزیر صحت مقرر نہیں کیا گیا ہے وزارت صحت وزیر اعلیٰ جام کمال خان کے پاس ہے جس کے باعث محکمہ صحت پر اتنی خاص توجہ نہیں جتنا کوئی ریگولیٹ وزیر دے سکتا ہے۔
دوسری جانب محکمہ صحت کاموجودہ سربراہ/سیکرٹری بلاشبہ ایک سنیئر بیورو کریٹ ہے لیکن اس عہدے پر ایک تجربہ کار اور سینئر ڈاکٹر کو ہونا چاہیئے تھا تاکہ کورونا وائرس کے اس خطرناک وباء کے دوران صوبے میں صحت عامہ سے متعلق متحرک رول ادا کرکے صوبے بھر کے اسپتالوں کو جدید سہولیات سے آراستہ کیا جاتا لیکن سوائے کوئٹہ کے کہیں بھی اور کسی بھی ضلع میں بہترین سہولیات سے مزین اور مثالی اسپتال نہیں ہیں اور نہ ہی اندرون بلوچستان کے ان ہسپتالوں میں ادویات اور ماہر ڈاکٹرز موجود ہیں۔محکمہ مواصلات و تعمیرات کا سربراہ ایک انجینئر کو ہونا چاہیئے تھا لیکن اس وقت محکمے کے سربراہ انجینئر نہیں کوئی سینئر بیورو کریٹ ہیں۔
بلاشبہ وہ پنجاب میں شہباز شریف کے زیر نگرانی سروس سر انجام دی ہے لیکن اب بلوچستان میں بننے والے روڈز یا تو ناقص اور غیر معیاری بنائے جاتے ہیں جس کے باعث صوبے میں روڈ انفراسٹیکچرز کا نظام تباہ ہے۔ بلوچستان واحد صوبہ ہے جہاں ان روڈوں کی لائف ٹائمنگ ایک سال سے بھی کم ہے غرض بلوچستان میں کسی بھی محکمے میں متعلقہ شعبے کے ماہر سیکرٹری کے بجائے کسی اور سینئر بیورو کریٹ کو تعینات کیا جاتا ہے اور پورے محکموں کے سیکرٹریز تمام محکموں کے یعنی متعلقہ شعبہ کے برعکس تعینات کئے جاتے ہیں یاں یوں کہیں کہ متعلقہ وزیر ہی کی فرمائش پر محکمے کے سیکرٹری کا تقرر کیا جاتا ہے۔
میرے کہنے کا یہ مقصد نہیں کہ صوبائی سیکرٹریز اہل نہیں ہیں تاہم ان کی تجربات کی روشنی میں ان کے کام اور تجربات سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ محکمہ تعلیم، محکمہ صحت، محکمہ مواصلات و تعمیرات کے سربراہ کو ماہر تعلیم،ڈاکٹر اور انجینئر ہی بہتر انداز میں چلا سکتا ہے اور صوبے میں میرٹ پر ہی بہتر فیصلے کرکے گڈ گورننس کو قائم کرکے عوام کو بہترین سہولیات فراہم کی جا سکتی ہیں۔ بلوچستان میں گڈ گورننس کا حال یہ ہے کہ ایماندار اور فرض شناس آفیسران کھڈے لائن ہیں،ایمانداری سے کام کرنے والے آفیسران کو ترقی اور شاباشی دینے کے بجائے ان کی ایمانداری ان کے کیریئر کیلئے بدنامی بن جاتی ہے۔
اور ان کے خلاف انکوائریز نکالی جاتی ہیں جس کی واضح مثال اسٹنٹ کمشنر عائشہ زہری ہیں انہوں نے اپنی جان جوکھوں پر رکھ کر اسمگلنگ مافیاز کے خلاف گھیرا تنگ کیا اور کروڑوں روپے کے اسمگلنگ کا سامان پکڑا تو اس کی کام کی تعریف کرنے اور ترقی دینے کے بجائے ان کا تبادلہ کرکے ان کو کھڈے لائن لگا دیا گیا اور چیف سیکرٹری بلوچستان نے ان کے خلاف انکوائری شروع کر دی، کیا یہ بلوچستان حکومت کی گڈ گورننس اور میرٹ ہے کیا صوبے میں فرائض منصبی احسن طریقے سے انجام دینے کااس طرح صلہ دیا جاتا ہے؟ کیاصوبے میں ایماندار آفیسران کو اس طرح کی سزا دی جا سکتی ہے۔
کیا صوبے میں ریاستی رٹ سے بھی سمگلنگ مافیاز زیادہ طاقتور ہیں وہ جو چاہیں کر سکتے ہیں، کیا ان مافیاز کی فرمائش پر ہی گورننس کو چلایا جا رہا ہے۔ یقینا اس طرح کے عمل سے ہی بلوچستان میں حکومتی سطح پر گڈ گورننس کے سمت کا آج تک تعین نہیں ہو سکا ہے جہاں گڈ گورننس نہ ہو وہاں کیونکر ترقی کا عمل بہتر انداز میں ہو سکتا ہے۔ بلوچستان میں ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ سیاسی قائدین،بیوروکریسی، مختلف طاقتور مافیاز ہی ہیں صوبے میں گڈ گورننس اور اختیارات کا اندازہ آپ اس امر سے بھی لگا سکتے ہیں کہ صوبے میں معاون خصوصی کے فوج ظفر موج کوبھرتی کر دیا گیا ہے۔
صوبے میں غیر منتخب لوگوں کو مختلف محکموں کا انچارج یا وزیر اعلیٰ کے معاون خصوصی بنا دیئے گئے ہیں وہ کن کی سفارش پر اور کن بہترین خدمات کے عیوض معاون خصوصی بنائے گئے ہیں؟کیا ان کی تعیناتی سے صوبے میں گورننس کا معیار بہتر ہوا ہے اور ہاں یہ معاونین کس طبقے کے نمائندے ہیں۔صوبے کے عوام شاید بہتر طور پر جانتے ہیں بلوچستان میں اب وقت آگیا ہے کہ جی حضوری کرنے والے سیاستدانوں کے بجائے حقیقی اور عوامی نمائندوں کو حق حکمرانی دی جائے اور ایسے نمائندوں پر سخت چیک اینڈ بیلنس رکھا جائے جہاں ناقص تعمیرات اور ناقص میٹریل استعمال کیا جائے۔
یا ان منصوبوں میں کرپشن کی شکایات ہوں، فوراً اس محکمے کے سیکرٹری، متعلقہ وزیر اور ذمہ داران کے خلاف قانونی کاروائی عمل میں لائی جائے تاکہ میرٹ اور گڈ گورننس کا معیار قائم ہو سکے۔ آج تک بلوچستان میں کسی کرپٹ اور نااہل آفیسر کے خلاف کوئی ایسی مثال نہیں ملتی جس کے خلاف سخت ایکشن لیا گیا ہو (سوائے مشتاق رئیسانی کیس کے) اب وقت آگیا ہے کہ بلوچستان کو کرپشن سے حقیقی معنوں میں پاک کرنے،گڈ گورننس اور میرٹ کو صوبے میں عام کرنے کیلئے سیاست دانوں،بیوروکریسی،اسٹیبلشمنٹ کو سوچناہو گااور اب نہیں تو کبھی نہیں۔
کے مصداق صوبے میں کرپشن کے خاتمے،گڈ گورننس کے حقیقی نفاذ اور میرٹ کی صوبہ بھر میں مکمل بحالی کو یقینی بنا کر صوبے کی پسماندگی، احساس محرومی اور عدم ترقی کا خاتمہ کرکے بلوچستان کو ترقیافتہ بنانا ہوگا اور بلوچستان کی ترقی ہی پاکستان کی بقا کی ضامن ہے اور بلوچستان کی ترقی ہی سے دشمن کی تمام سازشیں ناکام و نامراد ہو سکتی ہیں، نہیں تو صوبہ ستر سالوں سے پسماندگی،محرومی اور عدم ترقی کا جو شکار ہے اس کا تسلسل ہمیشہ جاری رہے گا اور اس تسلسل سے بلوچستان اور ملک کو نقصان کا اندیشہ ہو سکتا ہے۔ اب وفاق اور اسٹیبلشمنٹ کو بیٹھ کر بلوچستان کی پسماندگی کے اسباب۔
اس کے ذمہ داروں اور کرداروں کا تعین کرنا ہوگا اور ان کرداروں کو بے نقاب کرکے بلوچستان کے عوام کو آگاہ کرنا ہوگا تاکہ ایسے ترقی دشمن طاقتوں کو عوام پہچان سکیں – بلوچستان میں حقیقی معنوں میں میگا پراجیکٹس شروع کرکے اور عوام کے معیار زندگی میں انقلابی تبدیلیوں کا آغاز کرکے صوبے کی محرومیوں کو ختم کرکے اسے پاکستان کا ترقی یافتہ صوبہ بنانا ہوگا تاکہ بلوچستان کے باسی جدید ترقیاتی دور سے بہتر انداز میں مستفید ہو سکیں –