|

وقتِ اشاعت :   June 5 – 2020

کورونا کی قیامت برپا ہوئی تو پاکستان میں اس کی پہلی ضرب اسکولوں پر پڑی۔ ایک جانب کھیل کے میدان سجے رہے تو دوسری جانب علم کے دروازے بند کر دئیے گئے۔ صوبائی حکومتوں کا شاید یہ خیال ہوگا کہ اسکولوں کے دروازے اگر بند کر دیے جائیں تو کورونا کے سارے وائرس کھیل کود میں لگ جائیں گے اور ہم ان کو کھیل کے میدانوں میں گھیر گھار کر ہلاک کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے لیکن یہ وائرس اتنے بد ذوق اور خشک مزاج ثابت ہوئے کہ کھیل کے میدانوں کو ہی اجاڑ کر رکھ دیا۔
پاکستان کھیل سے فارغ ہوا تو پھر کہیں جاکر ارباب اختیار و اقتدار کو کورونا کی تباہ کاریوں کا خیال آیا۔

کھیل کے میدان سجنے سے کہیں پہلے دنیا کے بیشتر ممالک میں کورونا کے خلاف پیش بندیاں شروع ہو چکی تھیں لیکن دنیا کے کسی بھی ملک کو یہ گمان تک نہیں تھا کہ اچانک یہ وباء پوری دنیا میں پھوٹ پڑے گی۔ پاکستان بھی اس یقین کا شکار تھا کہ وائرس کا یہ حملہ پاکستان کی فضاؤں سے اوپر ہی اوپر سفر کرتا ہوا گزر جائے گا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان بھی اپنے بچاؤ کا کوئی خاطر خواہ انتظام نہ کرسکا اور اب یہ عالم ہے کہ سب کی عقلیں خبط ہو چکی ہیں کہ اس یلغار سے اپنے آپ کو بچایا جائے تو کیسے بچایا جائے۔

بے شک بچے نادان بھی ہوتے ہیں اور غیر محتاط بھی اس لئے جب کورونا کے خدشات بڑھنے لگے تو پورے پاکستان کے اسکولوں کو حفظِ ما تقدم کے طور پر بند کر دیا گیا۔ اسکولوں کو بند کرنے کا فیصلہ مناسب اور درست ہی تھا کیونکہ بچوں کی نادانی کورونا کے پھیلاؤ کا ایک بہت بڑا ذریعہ بن سکتی تھی لیکن اسی کے ساتھ اگر شہروں کے درمیان ہر قسم کی آمد و رفت کو فوری بند کر دیا جاتا تو اس بات کا قوی امکان تھا کہ یہ وباء پورے پاکستان میں نہیں پھیل پاتی۔پاکستان کے سارے نجی اور سرکاری اسکولوں کے بند کیے جانے سے ایک جانب تو تعلیم کا سلسلہ بری طرح متاثر ہوا تو دوسری جانب پورے ملک میں ایک بحث یہ بھی زور پکڑ گئی کہ جب تک اسکول نہ کھولے جائیں اس وقت تک کیا اسکولوں کی فیسیں ادا کی جائیں یا نہیں۔

بظاہر تو یہ بات دل کو لگتی ہے کہ جب اسکول بند ہیں اور کسی بھی قسم کی تعلیم کا سلسلہ چل نکلنے کا کوئی امکان نہیں، تو پھر کوئی بھی ادارہ فیس لینے کا حق کیسے رکھتا ہے۔زیادہ تر لوگوں کی رائے فیسیں ادا نہ کرنے کے حق میں ہے لیکن میری رائے عام لوگوں کی رائے سے ذرا مختلف ہے۔ ہر اسکول بیشک جو فیس بھی لیتا ہے وہ بچوں کو پڑھانے کے عوض ہی لیتا ہے لیکن اس حقیقت کو بھی پیشِ نظر رکھنا ضروری ہے کہ ہر اسکول کے ساتھ بہت سارے افراد کی روزی منسلک ہوتی ہے۔ ہر اسکول کی ایک انتظامیہ ہوتی ہے، اس کے اساتذہ ہوتے ہیں، صفائی والا عملہ ہوتا ہے، سکیورٹی عملہ ہوتا ہے اور دیگر بہت سارے امور انجام دینے والے افراد کے ساتھ ساتھ اسکول کو مینٹین رکھنے والے افراد ہوتے ہیں جن کی تنخواہیں ادارے ادا کرتے ہیں۔

علاوہ ازیں، اسکولوں میں بجلی، پانی اور کمیونیکیشن کا نظام ہوتا ہے جن کے بل ماہانہ بنیاد پر ادا کیے جاتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ سارے نجی اسکول اپنی اپنی عمارتوں کا کرایہ بھی ادا کرتے ہیں جو ہزاروں میں اور کچھ کا لاکھوں میں ہوتا ہے۔ گویا نجی ادارے جو فیس بھی وصول کرتے ہیں اس میں جہاں ادارے اپنا منافع رکھتے ہیں وہیں دیگر اخراجات بھی وہ ان ہی فیسوں سے ادا کرتے ہیں۔ ان حقائق کو سامنے رکھا جائے تو ان اداروں کا فیس لینا ناجائز نہیں جائز دکھائی دیتا ہے۔ البتہ فیسوں میں کمی کی جانے والی بات کسی حد تک اس لئے درست لگتی ہے کہ کئی کئی مہینے اسکول بند رہنے کی وجہ سے بجلی، پانی اور کمیونی کیشن کے بلوں کی ادائیگی میں کافی حد تک فرق پڑ سکتا ہے جس کو والدین سے شیئر کیا جانا چاہیے۔


اب رہی یہ بات کہ ادارے اساتذہ سمیت دیگر عملے کی تنخواہیں ایمانداری سے ادا نہیں کرتے ہیں تو ایسے اداروں کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جا سکتی ہے اور ان کو پابند کیا جا سکتا ہے کہ وہ اساتذہ اور عملے کی تنخواہیں لازماً ادا کریں۔اگر والدین کی جانب سے اسکولوں کی فیسیں بالکل ہی ادا نہیں کی گئیں اور جیسا کہ لگ رہا ہے کہ والدین کی جانب سے ایسا کیا بھی جائے تو اس بات کا خدشہ ہے کہ ادارے اساتذہ سمیت اپنے عملے کو ہی فارغ کرنے پر مجبور ہو جائیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ بیشمار ادارے اپنے آپ کو از خود بند کردیں۔ یہ صورت حال بہت ہی خطرناک شکل اختیار کر سکتی ہے۔ اس سے ایک جانب لاکھوں بچے تعلیم سے محروم ہو جائیں گے تو دوسری جانب بے روزگاری میں بھی بے پناہ اضافہ ہوگا۔ اس لئے حکومت اور انتظامیہ، دونوں کو اس معاملے پر نہایت سنجیدگی کے ساتھ غور کرنے اور مل بیٹھ کر کسی نتیجے پر پہنچنے کی شدید ضرورت ہے۔