|

وقتِ اشاعت :   September 23 – 2014

پورا پاکستان چیخ رہا ہے کہ بجلی تقسیم کرنے والے ادارے اوور بلنگ کررہے ہیں۔ لوگوں کے جیبوں پر ڈاکہ ڈال رہے ہیں ۔ اوور بلنگ کا مسئلہ صرف بجلی کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ یہ کار خیر گیس کا محکمہ بھی وقتاً فوقتاً کرتا رہتا ہے اور لوگوں کی چیخیں نکالتا رہتا ہے۔ بجلی کے حوالے سے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ اس کی چوری میں محکمے کے اکثر اہلکار ملوث پائے گئے یا بجلی چوروں کی سرپرستی کرتے رہے ہیں ۔ایک اور بات خاص طور پر نوٹ کی گئی ہے کہ بجلی چوری روکنے کے نام چیکنگ کے دوران قلیل بجلی استعمال کرنے والے گھریلو صارفین کو تو پکڑ لیا جاتا ہے اور انہیں جیل بھی بھیج دیا جاتا ہے لیکن بڑے بڑے چوروں جن کے کارخانے چوری کی بجلی سے چلتے ہیں ان سے صرف نظر کیا جاتا ہے اور انہیں کوئی پوچھتا بھی نہیں لیکن غریب گھریلو صارفین کو جو زیادہ سے زیادہ دو تین پنکھے اور بلب اور ایک پانی کا موٹر استعمال کرتا ہے اسے دبوچ لیا جاتا ہے۔ یہ دہرا معیار ترک کرنا ہوگا۔ اب وفاقی کابینہ نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ شریف لوگوں کو بجلی کے اضافی بل بھیجے گئے ہیں ۔ لوگوں نے اتنی بجلی استعمال نہیں کی جتنی زیادہ بل صارفین کو دئیے گئے ۔ اس طرح سے حکومتی اداروں کی جانب سے لوگوں اور خصوصاً بجلی کے صارفین کے جیبوں پر ڈاکہ ڈالا گیا ۔ ہم نے بارہا ان کالموں میں یہ شکایت کی ہے کہ کوئٹہ الیکٹرک سپلائی نے نئے اور ڈیجیٹل میٹر کے بہانے ایسے میٹر کوئٹہ میں لگائے ہیں جو تیس فیصد اضافی بل کی نشاندہی کرتے ہیں ۔ اس کا ثبوت یہ واقعہ ہے جب میٹر وں کی چیکنگ کے دوران بجلی چلی گئی تو کیسکو انسپکٹر کی موجودگی میں ان کوایسے میٹر کی نشاندہی کی گئی کہ وہ میٹر بجلی چلے جانے کے باوجود چل رہا تھا ۔ کیسکو کے اہلکار محلہ کے لوگوں کے سامنے سر پیٹتا رہا اور اپنی بے بسی کا اظہار کرتا رہا ۔ پورا کوئٹہ شہر اور خصوصاً گھریلو صارفین سراپا احتجاج ہیں کہ ان سے زائد بل وصول کیے جارہے ہیں لیکن ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے ۔ ان کو کسی قسم کی راحت نہیں پہنچائی جارہی ۔ آج وفاقی کابینہ کے اجلاس میں یہ تسلیم کیاگیا کہ بجلی تقسیم کرنے والے اداروں نے زائد بلنگ کی ہے ۔ بجلی کے نائب وزیر عابد شیر علی نے اس کی کئی ایک وجوہات بتائیں کہ ان اداروں نے صارفین کے جیبوں پر کیوں ڈاکہ ڈالا ۔ ظاہر ہے کہ حکومت میں عام اور غریب لوگوں کے مفادات کا نگران کوئی نہیں ہے۔ حکومت کا عام لوگوں اور عام صارفین سے کوئی تعلق نہیں کہ ایسے سرکاری اداروں کو روکا جائے جو غیر قانونی طورپر لوٹ مار میں ملوث ہیں ۔ ویسے بھی مسلم لیگ کو تاجر لیگ کی حکومت کے طورپر پہچانا جاتاہے ۔یہ صرف تاجروں ، صنعت کاروں اور ساہو کاروں کے مفادات کی نگرانی کرتا ہے بلکہ اہم ترین سیاسی رہنماؤں پر ایک چھوٹے سے تاجر کو ترجیح دی جاتی ہے۔ یہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ وفاقی کابینہ نے یہ فیصلہ عوام کے دباؤ میں آنے کے بعد کیا ہے ورنہ عوامی مفادات کا تحفظ مسلم لیگ اور اس کی ساہو کار لیڈر شپ کے ایجنڈے میں نہیں ہے ۔ اس لئے ضروری ہے کہ کیسکو وہ تمام میٹرز جو شہر بھر میں تیز رفتاری سے چل رہے ہیں ان کو واپس نکالے اور ان کی جگہ پر حقیقی اورصحیح میٹر نصب کرے جو صحیح ریڈنگ دے۔ یہ حکومت اور بجلی کی کمپنی کی اخلاقی اور قانونی ذمہ داری ہے کہ حکومتی سطح پر صارفین کی لوٹ مار بند کرے اور صارفین کو یہ یقین دلایاجائے کہ ان کے جیبوں پر ڈاکہ نہیں ڈالا جارہا ہے ۔البتہ وہ لوگ جو بجلی کا بل ادا نہیں کرتے ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے ۔بجلی چوروں کا بل عام صارفین سے وصول نہ کیاجائے یہ اخلاقی اور قانونی طورپر جرم ہے ۔