دھول اڑاتا ہوا یہ راستہ آواران سے تربت کے لئے نکلتا ہے جہاں ٹریفک کی بہت کم آمد ور رفت ہوتی ہے جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے۔ یہ سڑک تربت اور ملحقہ علاقوں کے لئے کراچی اور کوئٹہ یا دیگر علاقوں تک عوامی سفر اور سامان کی امپورٹ اور ایکسپورٹ کے لئے بہت مشہور تھی۔ جہاں سے ایرانی اشیاء فروخت کرنے کے لئے بارڈرز سے ملحقہ علاقوں کے لوگ سامان کی ترسیل کا کام کیا کرتے تھے۔ اس شاہراہ پر مسافر اور مال بردار گاڑیوں کی آمد و رفت کی وجہ سے نہ صرف یہ تربت بلکہ آواران کے عوام کی معیشت کا اہم ذریعہ سمجھا جاتا تھا۔ اس شاہراہ پرٹریفک کی بہتات کی وجہ سے ان علاقوں کے عوام کافی خوشحال تھے۔ انہیں نہ گورنمنٹ ملازمت کی ضرورت تھی اور نہ ہی پرائیوٹ اداروں سے منسلک ہونے کی۔جب بھی اس شاہراہ پر نظر پڑتی ہے تو مجھے میرا بچپن یاد آتا ہے جب اس روڑپر ہوٹل، پنکچر کی دکانیں اور کیبن پوری رات کھلے رہتے تھے ۔مسافر اور مال بردار گاڑیاں رات کو انہی ہوٹلوں، دکانوں پر ٹھہرتے تھے ۔ بازاروں میں ایرانی سامان، تیل اور موٹرسائیکل کے پرزہ جات بارعایت داموں دستیاب تھے اور ایرانی موٹرسائیکل یاماہا لوگوں کی مخصوص سواری ہوا کرتی تھی۔ اور یہ سامان علاقے کے لوگوں کو پاکستانی اشیاء کی نسبت نہایت ہی سستے داموں ملتے تھے۔ ایرانی ڈیزل ، پٹرول اور یوریاکی وجہ سے علاقے کے لوگ اپنی زمینوں کو اچھے طریقے سے آباد کیا کرتے تھے۔ اور ٹرانسپورٹیشن کا واحد ذریعہ یہی شاہراہ تھی جسکا فاصلہ آواران سے تربت تک 230کلومیٹر ہے جو آواران سے ہوتا ہوا گیشکور، ڈنڈار، بیدرنگ، شاہرگ، ہوشاب ، تربت، مندتا ایرانی سرحد کو جاتا ہے۔ اور پھر ہوشاب سے ایک راستہ پنجگور کی طرف نکلتا ہے اگر کہا جائے کہ یہ ہوشاب آواران، کیچ اور پنجگور کو ملانے والی شاہراہ ہے تو بے جا نہیں ہوگا۔ اس وقت آواران کو ایک مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ لیکن مشرف دور حکومت میں نہ صرف آواران کے عوام سے یہ زیادتی کی گئی کہ ان سے یہ آمد و رفت کا ذریعہ چھین لیا گیا اگر یہ کہا جائے کہ آواران سے اسکی ترقی چھین لی گئی تو بے جا نہیں ہوگا۔ جونہی مکران کوسٹل ہائی وے کی تعمیر کا کام مکمل ہو گیا تو تربت سے مسافر کوچز اور مال بردار گاڑیوں کا روٹ بھی تبدیل ہو گیا اور آواران ٹو تربت روڑ ویران ہو گیا۔اور اس شاہراہ پر لوگوں کے روزگار کا اہم ذرائع ہوٹل، دکانیں، کیبن، پنکچر کی دکانیں بند ہو گئیں۔ اس اقدام سے علاقے کی معیشت پر بے حد برااثر پڑا۔ مشرف دور حکومت میں ایک کام یہ بھی کیا جا سکتا تھا کہ کوسٹل ہائی وے کی تعمیر کے ساتھ ساتھ وہ آواران ٹو تربت روڑ کی تعمیر کا کام بھی شروع کرتے اور اس شاہراہ کو مکمل کرتے تو یقیناًتربت کے ٹرانسپورٹرز اسی شاہراہ کو استعمال میں لاتے۔ لیکن یہ کام بھی نہیں کیا گیا۔ جس سے آواران نہ صرف ایک صدی پیچھے کی جانب چلا گیا بلکہ اسکے ساتھ ساتھ یہاں کے عوام کا روزگار کے ذرائع اور کھیتی باڑی پر اثر پڑ گیا۔ جونہی آواران کا زمینی رابطہ تربت سے کٹ گیا تو نہ صرف حکومتی توجہ اس جانب سے ہٹ گئی بلکہ اسکے ساتھ ساتھ محکمہ بی اینڈ آر نے بھی اسکی جانب توجہ دینا مناسب نہیں سمجھا۔ اس سڑک کی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ آواران کے لوگوں کو اس شاہراہ پر کسی بھی وقت سواری مل جاتی تھی اگر وہ تربت یا کراچی جانا چاہتے۔ البتہ جب گڈانی حادثے میں چالیس سے زائد افراد کے جھلسنے کا واقعہ پیش آیاتو تیل بردار گاڑیوں پر مکران کوسٹل ہائی وے سے تیل کی برآمدات پابندی لگ گئی ۔ جسکی وجہ سے تیل بردار گاڑیوں نے اپنا رخ ایک مرتبہ پھر آواران روٹ پر کیا جس سے کچھ عرصے کے لیے علاقے کے لوگوں کو فائدہ پہنچنا شروع ہو گیا۔ جس سے ہوٹل، دکانیں پھر سے آباد ہو نا شروع ہو گئے لیکن چند مہینے گزرنے کے بعد پھر سے اس روٹ پر گاڑیوں کی آمدورفت معطل ہو گئی۔ علاقے کے لوگوں میں ایک مرتبہ پھر کاروبار شروع ہونے کی امید جاگ اٹھی تھی وہ بجھ گئی ۔ تربت ٹو آواران روڑ کی تعمیر جو آواران اور تربت کے عوام کے لئے ایک خوشحال تبدیلی کا ضامن بن سکتی ہے۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ جو خود ہی تربت سے تعلق رکھتے ہیں وہ علاقے کے مسائل کا دکھ درد سمجھ سکتے ہیں اور یقیناًاس مسئلے کی ادراک وہ کر سکتے ہیں اگر وہ دوبارہ اس روڈ کی بحالی کے لئے اپنی تمام تر کوششیں بروئے کار لائیں کیونکہ اس سے نہ صرف آواران کے عوام کے لئے خوشحالی آسکتی ہے بلکہ اسکے ساتھ تربت کے عوام کو کراچی کا مسافت طے کرنے کے لئے زیادہ وقت بھی درکار نہیں ہوگا اور اسکے ساتھ ساتھ انکے روزمرہ زندگی میں ایک خوشگوار تبدیلی آسکتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ موجودہ حکومت تربت اور آواران کے عوام کے دیرینہ مسئلے کو حل کرنے کے لئے اہم اقدامات اٹھائے۔
لوگوں کی خوشحالی شاہراہوں سے وابستہ ۔۔۔ تحریر: شبیر رخشانی
وقتِ اشاعت : September 23 – 2014