*گستاخیاں
بلوچستان جب سے صوبہ بنا ہے اس وقت سے لیکر آج تک کسی بھی وزیر اعلیٰ نے صوبائی حقوق، پسماندگی، عدم ترقی اور مرکزی منصوبوں میں بلوچستان کو ترقیاتی عمل میں نظر انداز کرنے کے حوالے سے دو ٹوک اور ٹھوس موقف اختیار کیا اور نہ ہی بھر پور احتجاج کیا ہو، اس طرح کی آپ کو صوبے کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملے گی بلوچستان میں کم و بیش ڈیڑھ درجن سے زائد مختلف شخصیات وزارت اعلیٰ کے منصب پر فائز ہونے کے باوجود صوبائی حقوق کیلئے کاکوئی ایساکارنامہ سرانجام نہیں دیا جس کی کوئی بھی مثال دی جا سکتی ہو یا یوں کہیں کہ بلوچستان کے عوام ان کے ان عظیم کارناموں پر فخر کرتے ہوں۔
آج تک آپ کو کسی بھی وزیراعلیٰ کی جانب سے صوبائی ساحل وسائل، گیس رائلٹی، سیندک,ریکوڈیک سمیت دیگر قیمتی معدنیات کے حوالے سے کبھی بھول کر وفاق سے بات کی ہو اور ظلم تو یہ ہے کہ جب صوبے کے وزیر اعلیٰ اتنا بے بس اور لاچار ہو تو یہ حقیقت ہے کہ ستر سالوں سے بلوچستان کی پسماندگی کے ذمہ دار ان نااہل حکمران اور صوبے کے منتخب نمائندے ہیں۔ 18ویں ترمیم سے قبل صوبے کے جتنے بھی وزیر اعلیٰ گزرے ہیں وہ ہر ماہ کے شروع میں صوبائی ملازمین کی تنخواہوں کیلئے اسلام آباد یاترا کرنے جاتے تھے اور وفاق کو منت سماجت کرکے صوبائی ملازمین کے تنخواجات کی ادائیگی کرانے میں کامیاب ہوتے تھے۔
بلوچستان واحد صوبہ ہے جو کہ صرف اور صرف وفاق کے آکسیجن اور اوور ڈرافٹ پر ہی صوبے کا بجٹ چلاتا تھا لیکن 18ویں ترمیم کے بعد صوبائی دائرہ کار اور اختیارات میں اضافہ ہوگیااور این ایف سی ایوارڈ کے تحت فنڈز میں بھی اضافہ کر دیا گیااور ساتھ ہی بہت سے مرکزی محکمے صوبے کے پاس آگئے اور صوبہ کو کثیر ترقیاتی فنڈز ملنے لگے لیکن بلوچستان ترقی کے ثمرات سے بہرہ مند نہ ہو سکا۔ اس کا ذمہ دار سلیکٹڈ حکمران ہیں یا پھر ان کا انتخاب کرنے والے،تاہم حکمران طبقہ اپنا مستقبل سنوارنے میں کامیاب ضرور ہو گئے ہیں لیکن صوبہ کے مفلوک الحال عوام آج بھی صاف پینے کے پانی، بنیادی صحت عامہ کی سہولیات،تعلیم جیسی عظیم نعمت اور سب سے بڑی بات صوبے سے نکلنے والی قدرتی گیس جس سے ملکی کارخانے چل رہے ہیں۔
لیکن بلوچستان کے ستر فیصد بدقسمت باسی اس عظیم گیس کی سہولت سے محروم ہیں۔ صوبے میں ذوالفقار علی بھٹو اور جنرل مشرف کے دور میں ترقیاتی منصوبوں کے بعد کسی بھی حکومت نے میگا منصوبے نہیں لگائے۔بھٹو کے دور میں ایک بولان میڈیکل کالج اور تین یونیورسٹیز، ایک انجینئرنگ یونیورسٹی کے بعد آج تک کوئی وفاقی منصوبہ نہیں بنایا گیا اور تو اور بلوچستان کے تین قومی شاہراہیں جو کہ سنگل ہیں وہ ان ستر سالوں میں ڈبل نہیں ہو سکی ہیں۔
ان خونی شاہراہوں پر بلوچستانی عوام کا سستا خون ہمیشہ رقص کرتا رہتا ہے۔صوبے کے شاہراہ قاتل شاہراہوں کا روپ دھار چکے ہیں بلوچستان کے ہسپتال مقتل گاہ بن چکے ہیں تعلیمی ادارے اسکالر اور ڈاکٹر بنانے کے بجائے جہالت کے کارخانے بن چکے ہیں لیکن ہمارے صوبے کے حقوق کیلئے گلے پھاڑ پھاڑ کر تقریر کرنے والی قوم پرست جماعتیں،وفاقی اور صوبائی جماعتیں مرکز کی اس ناانصافی اور عدم ترقی کے خلاف خاموشی کا روزہ رکھ چکے ہیں۔ صوبے کے حقوق کیلئے پہلے اپوزیشن کسی حد تک شور شرابہ کرتی نظر آ رہی تھی لیکن اب وہ بھی کسی مصلحت کے تحت خاموش ہو چکی ہے۔ گزشتہ دنوں وزیراعلیٰ بلوچستان کی این ایف سی اجلاس سے واک آؤٹ کی کوئی خبر نظر سے گزری، جام کمال خان نے صوبے کے منصوبوں کو پی ایس ڈی پی سے نکالنے پر واک آوٹ کیا ہے۔
جس پر مجھے یہ بھی ایک سیاسی واک آؤٹ لگا، صوبے کے حقوق کیلئے واک آؤٹ صرف اور صرف پوائنٹ اسکورنگ ہے جب واک آؤٹ بھی کیا گیااور بلوچستان کو مسلسل مرکز نظر انداز بھی کیا جا رہا ہے تو جام کمال خان کی بی اے پی کیوں مرکز میں خاموش ہے۔ قومی اسمبلی کے اراکین کیوں احتجاج نہیں کر رہے، کیونکر وفاقی وزارتوں سے ابھی تک استعفیٰ نہیں دیئے ہیں جب صوبے کوترقیاتی منصوبے مرکز دے نہیں رہا تو بی اے پی کیوں وفاقی حکومت میں بیٹھ کر اختیار کے مزے لے رہی ہے اور ہاں اگر جام کمال نے میٹنگ سے واک آؤٹ کیا ہے۔
تو اس پر صوبائی اسمبلی میں کیوں بحث نہیں کی گئی، اس پر اسمبلی میں کیوں قرار داد مذمت نہیں لائی گئی یہ سب ٹوپی ڈرامہ ہے دراصل بلوچستان میں کوئی بھی سیاسی لیڈر اس طرح کرکے اپنی سیاست اور وزارت کھونا نہیں چاہتا اور اس طرح کرکے ہی ہمارے نمائندے نسل در نسل ہم پر مسلط ہیں۔بلوچستان اسمبلی کی پوری تاریخ نکالیں بیٹا باپ دادا نواسہ ہی منتخب ہوتے رہے ہیں سوائے چند حلقوں میں نئے چہرے لانے کے سوا پوری اسمبلی ان موروثی اراکین اسمبلی پر ہی مشتمل ہے۔ مجھے تعجب اور حیرت ہے کہ پنجاب سندھ اور خیبر پختون خواہ کے وزارت اعلیٰ کے منصب پر فائز نمائندے کس طرح اپنے صوبے کے حقوق کیلئے وفاق سے لڑتے ہیں اور ان کی صوبائی اسمبلیاں بھی ان کی حمایت کرتے ہیں۔
اسمبلیوں میں قراردادیں پیش اور منظور ہوتی ہیں لیکن بلوچستان کا کوئی بھی ایسا مسئلہ ہو وفاق کی جانب سے مسلسل نظرانداز، سی پیک منصوبہ ہو،وفاقی کوٹہ پر ملازمتوں پر عمل درآمدکا مسئلہ ہو،گیس رائلٹی،صوبے کے سینڈک اور ریکوڈیک کے رائلٹیز کے حقوق ہوں مجھے یاد نہیں کہ کبھی بلوچستان اسمبلی یا بلوچستان کی نمائندگی کرنے والے لیڈران نے اپنے ان وسائل پر دسترس اور حق کے حوالے سے کوئی بات ہی کی ہو یا کسی نے ہمت کرکے وفاق سے اس بابت کوئی احتجاج کیا ہو، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بلوچستان اسمبلی کے نمائندے کس کی نمائندگی کرتے ہیں اگر وہ عوامی نمائندے ہیں تو صوبے کے حقوق پر کیونکر بات نہیں کرتے اور اگر عوامی نمائندے نہیں ہیں تو وہ کس طرح عوام پر مسلط ہو کران کے حقوق غضب کر رہے ہیں۔
بلوچستان کے حقوق کیلئے قوم پرست بھی بڑی بڑی باتیں اور عوام کو بہلانے کیلئے خوشنما نعرے لگاتے نہیں تھکتے۔ بلوچستان کیلئے جانوں تک قربان کرنے والے قوم پرست اب کس بل میں سو رہے ہیں بلوچستان نیشنل پارٹی مرکز میں حکومت کی اتحادی جماعت ہے،کیا بی این پی نے بلوچستان کو مرکزی سطح پر نظرانداز کرنے پر کوئی آواز حق بلند کرنے کی جسارت کی ہے،کیا اپنے چھ نکات کی طرح بلوچستان کو مسلسل ترقیاتی منصوبوں میں شامل نہ کرنے پر قومی اسمبلی میں احتجاج یا وزیراعظم سے کوئی گلہ کیا ہے یقینا اب تک اس حوالے سے تاحال کوئی ایکشن نہیں لیا گیا ہے۔
بلوچستان کی بدقسمتی ہے کہ صوبے پر حق حکمرانی ایسے گونگے، بہرے اور اور نااہل نمائندوں کو دیا گیا ہے جن کی اولین ترجیح کسی کی خوشنودی حاصل کرنا ہے، ان کی ترجیحات بلوچستان کے عوام کی ترقی نہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ بلوچستان کے لوگ ان قوم پرست اور دیگر سیاست دانوں کے کردار اور عمل کو پہچاننے اور باشعور ہو کر صوبے میں حقیقی تبدیلی لائیں۔ اور صوبے میں مرکز کی جانب سے مسلسل نظر انداز کرنے پر اس طرح متحرک کردار ادا کریں کہ صوبائی اسمبلی صوبے کے حقوق کیلئے وفاق کے سامنے ڈٹ جائے اور بلوچستان کے حقوق کیلئے صوبے کی تمام سیاسی جماعتیں مجبور ہو کر وفاق کے خلاف احتجاج کریں تو پھربلوچستان کے حقوق اور مرکزی ترقیاتی منصوبوں میں حصہ داری مل سکتی ہے۔
لیکن یہ سب قیاس ہیں اس طرح کی سیاسی قیادت تاحال بلوچستان میں کوئی نظر نہیں آ رہی ہے اور اگر کسی نے بھول سے بھی اس طرح کی حرکت بھی کی تو نیب کی بھی آنکھیں کھل جائیں گی اور تمام فائلیں نکال کر تحقیقات کرائی جائیں گے۔ بلوچستان میں کرپشن کے خاتمے اور کرپٹ لوگوں کے خلاف سخت ایکشن سے ہی صوبائی حقوق کیلئے آواز بلند ہو سکے گی۔ جہاں کرپشن سے پاک اراکین اسمبلی ہونگے وہ ہی وفاق سے دوٹوک موقف اختیار کر سکتے ہیں اور کسی حد تک احتجاج بھی کر سکتے ہیں،نہیں تو اس اسمبلی سے اس طرح کی امید رکھنا احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے۔